تجزیہ 64

شامی خانہ جنگی کے دس برسوں بعد امریکی، ترک اور یورپی یونین کی اس ملک کے بارے میں پالیسیوں پر ایک نگاہ

1604654
تجزیہ 64

شام میں  دس برسوں سے جاری خانہ جنگ  کا تاحال کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا گیا۔ لاکھوں شامی شہریوں کے ہلاک ہونے اور تقریباً70 لاکھ کے بیرون ملک  نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونے والا یہ المیہ  دنیا بھر کی نگاہوں کے سامنے جوں کا توں  جاری ہے ۔ مارچ 2011 میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرو ں  کا عوام کو سزا دینے کی شکل میں جواب دینے والی اسد انتظامیہ  ابھی تک اپنے پاؤں پر قائم دائم ہے۔اولین طور پر  اقوام متحدہ   سمیت عالمی تنظیمیں، امریکہ اور یورپی یونین کی طرح کے اداکار   صحیح معنوں میں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے  میں ناکام رہے ہیں۔ روس اور  ایران   نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر  بناتے ہوئے اسے طول دینے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

شامی شہریوں کے لیے سب سے زیادہ خدمات ادا کرنے والا ملک بلاشبہہ ترکی ہے۔ صدر ایردوان  نے ’’ڈیموکریسی، آزادی اور انسانی حقوق  کے دوبارہ سے گرما گرم موضوع بننے والے‘‘ ان ایام میں مغربی ممالک  سے  ترکی  کی شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں میں ہاتھ بٹانے کی  اپیل   پر مبنی ایک کالم تحریر کیا ہے۔ انہوں نے  لاکھوں شامی  شہریوں کی میزبانی کرنے، داعش دہشت گرد تنظیم سمیت متعدد دہشت گرد گروہوں  کے برخلاف محارب قوتوں کو  بروئے کار لانے والاپہلا   ملک ترکی ہونے  کا ذکر کرتے ہوئے  اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ ہم نے دہشت گردوں سے پاک کردہ  مقامات پر مقامی عناصر کے تعاون سے محفوظ علاقے قائم کیے  ہیں۔

گزشتہ دس برسوں میں واشنگٹن  اس مسئلے کا کوئی حل  سامنے نہیں لا سکا اور اب یہ شامی بحران کے بارے میں کسی نئی پالیسی کو مرتب کرنے کا متلاشی دکھائی دیتا ہے۔ ڈیموکریٹ بائڈن انتظامیہ  شام کو ’’ڈیموکریسی اور انسانی حقوق‘‘ کی طرح کی اقدار کا تجربہ کیے جانے والے ایک مقام کے طور پر   پیش پیش رکھنے کے درپے ہے۔  ترک صدر ایردوان کا نئی امریکی انتظامیہ کے لیے پیغام  کافی عیاں اور واضح ہے:’بائڈن انتظامیہ  کو انتخابی مہم کے دوران دیے گئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے شام میں المیہ کے خاتمے اور جمہوری اقدار کا دفاع کرنے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘ اگر امریکی انتظامیہ نے انسانی حقوق کے معاملے کی جانب  کچھ حد تک جھکتے ہوئے اور دہشت گرد تنظیم  پی کے کے کی شاخ وائے پی جی سے مزید تعاون کرتے ہوئے شام فائل  پر کام کیا تو اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ یہ اوباما کی  غلطیوں کو دہرائے گی۔

صدر ایردوان کی اپیل  محض امریکہ تک محدود نہیں ، اس کالم کی یورپی یونین سربراہی اجلاس سے قبل  اشاعت اس اعتبار سے قدرے اہم ہے۔ یورپی یونین  کے مسئلہ شام پر  ٹھیک معنوں میں کس قسم کا مؤقف اپنانے کا معاملہ غیر یقینیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر ترکی کی انسانی بنیادوں پر مبنی شام پالیسیاں  نہ ہوتیں تو آج  یورپی یونین کےتقریباً تمام تر ممالک میں انتہائی دائیں بازو  کی سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار ہوتیں ۔

مغربی سربراہان  شمالی شام کے محفوظ علاقوں میں  ہونے والے وائے پی جی کے حملوں  اور داغے گئے روسی میزائلوں کے خلاف بولنے سے قاصر رہے۔ وائے پی جی ابتک مذکورہ علاقوں میں مجموعی طور پر 224 بار حملوں کی مرتکب ہوئی ہے۔  ان میں سے 64 کار بم حملے ، 64 دستی بم حملے  ، 51 مسلح حملے، 19 مارٹر گولے حملے  اور 9 راکٹ حملے ہیں۔

ترکی کے زیر کنٹرول محفوظ مقامات اور ادلیب میں 40 تا 50 لاکھ شامی شہری مقیم ہیں، ترکی میں پناہ لینے والے 40 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو بھی اس تعداد میں شامل کرنے سے شامی آبادی کے نصف کے ترکی  کے تحفظ میں زندگی بسر کرنے کا مشاہدہ  ہوتا ہے۔ محض یہ حقیقت ہی امریکہ اور یورپی یونین  کو با حفاظت مقامات کے قیام  کے معاملے میں تعاون کی ضرورت ہونے کا مظہر ہے۔ شامی مساوات میں ترکی کا کہیں زیادہ مؤثر بننا مغربی  ممالک کے حق میں ہے، ایک نا ایک دن اپنے انجام کو پہنچنے والی وائے پی  جی  کے ہمراہ شام میں یہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہو جائینگے۔

خانہ جنگی کو پورے دس  برس بیت چکے ہیں تو شامی بحران سے متعلق تا حال کوئی روڈ میپ وضع نہیں کیا جاسکا۔ اکیسویں صدی کا بد ترین المیہ ہونے والے شامی بحران کے حل تک  خطے میں استحکام کا قیام ممکن دکھائی نہیں دیتا۔



متعللقہ خبریں