لب آب سے آئی تہذیب26

"پانی اور اس کی قدرو افادیت"

1589258
لب آب سے آئی تہذیب26

انسان اس  کرہ ارض پر قدرت کی تقلید کرنے میں مصروف رہا ہے۔انسان نے اس تقلید میں اہم ایجادات ضرور کی ہیں مگر اس کی حد  قدرت نے مقرر کر رکھی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم قدرت اورپانی پر اپناحکم صادر کر دیں گے لیکن حقیقت تو یہ ہے ہم نے  اس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انسان فطرت سے بالاتر ہے اور اس کی ہر شہ اس کے لیے معین ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم نے اس کی خدمت کرنے کا فرض اپنے ذمے لینا شروع کر دیا شاید اسی وجہ سے ہمارے امور کار میں اضافہ ہوا اور ہم نے زیادہ پیداوار کرنے کےلیے صنعتی انقلاب جیسے طریقہ کار اپنائے جو کہ غلط رہا ہے۔
کثرت آبادی اور صنعتی انقلابات کے آغاز سے ہی آبی وسائل کی آلودگی اور ماحولیاتی تغیر میں اضافہ ہونے لگا جس سے پانی کی قدر مزید بڑھ گئی۔ پانی کو اب"  نیلا سونا "بھی کہا جانے لگا ہے ۔آج  کی دنیا میں متعدد لوگوں کا خیال  ہے مستقبل قریب میں  پانی کی مفت تقسیم  ذرا مشکل نظر آتی ہے اور پانی کو  پٹرول کی طرح تجارتی سودے بازی کا حصہ بنانے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں اس نظریے پر عمل درآمد کا بھیسوچا جا رہا ہے جہاں کاشتکاروں کو رقم کی ادائیگی کرنے کے  عوض  اراضیوں اور جانوروں کے لیے پانی مہیا کیا جاتا ہےاور جن کے پاس رقم نہیں ہے انہیں برے وقت کا انتظار رہتا ہے۔ وہ وقت زیادہ  دور نہیں لگتا کہ پانی کے معاملے پر  جنگیں شروع ہونگی جیسا کے عموما آج کل کی فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔
 یہ کتنی خوفناک بات ہوگی کہ جن کے پاس ہوگا وہی پانی کا استعمال کر سکیں گے،پانی کو ذریعہ تجارت بنانے والے اس کے جائز مقام  کو  نطر آنداز کرتےہوئے انسانی زندگی کو   اپنی  ہوس اور لالچ کا محتاج بنانے کے درپے ہیں۔ مولانا رومی کے بقول اس کرہ ارض پر پانی محتاجوں اور یتیموں کی نشو نما کرتا ہے  پیاسوں کی تشنگی کا وسیلہ بنتا ہے۔ کیونکہ پانی نہیں تو زندگی نہیں۔
 کیا پانی ایک کیمیائی مرکب ہے؟ دو ہائڈروجن اور ایک آکسیجن کے امتزاج سے بنا ہے ۔اگر ایسا ہے تو اسے  تخلیق  کرتےہوئے کیوں نہیں  خشک سالی اور کمیابی کے حامل علاقوں کو روانہ کیا جاتا؟  دراصل لگنے میں آسان نظر آتا ہے مگر اس کی تخلیق کافی پیچیدہ ہے۔ زندگی کے لیے پانی کی اہمیت قیمتی معدنیات سے کہیں زیادہ ہے، اوزبک کہاوت ہے کہ پانی کے ہر قطرے میں سونے کا ایک ذرہ پوشیدہ  ہے جس  کی قیمت انمول ہے۔ پانی  سر چشمہ حیات ہے۔
 کتنے افسوس کا مقام ہے کہ  پینے کے پانی کے وسائل دنیا میں کم ہوتے جا رہےہیں۔ اس وقت ہماری دنیا پانی کے ممکنہ بحران سے دوچار ہے یہی وجہ ہے کہ   کئی ممالک اپنی دولت،وسائل،مستقبل اور سلامتی  و معاشی مفادات کے لیے پانی کو اہمیت دے رہے ہیں۔دو رحاضر میں  آسٹریلیا سمیت دیگر علاقوں میں لگنے والی جنگلاتی آگ خشک سال کا پیش خیمہ نظر آتی ہے۔
 اس دنیا میں جتنے بھی وسائل آب ہیں ان میں دریا ایسے ہیں  جو کہ  خاموشی سے تہذیبوں کے ہم راز بنے ہیں۔ ہزار ہا سالوں سےانہوں نے اپنی گہرائی میں ان رازوں کو  تہذہیبوں کے آثار کی آڑ میں چھپا رکھا ہے۔
 پانی کرہ ارض پر زندگی کے دوام سے کہیں پہلے موجود تھاجس کے سامنے ابتدائی انسان بے بس اور کمزور تھامگر  اس کے کنارےآبادیاں بڑھنے کے بعد اس کی طاقت کم  ہوتی گئی۔ انسان نے وقت پڑنے پر اسے امراض کے خلاف علاج کے طورپر اور بعض دفعہ شعبہ طب کی ترقی میں استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ بعض علاقے دیگر کے مقابلے میں زیادہ خوش قسمت تھے چونکہ  انہیں  جھیلوں،دریاوں اور سمندروں کے بارے میں پہلے سے بتایا جا چکا تھااور جو اس  کی اہمیت سےبھی واقف تھےلیکن، اس وجہ سے انہیں جنگوں اور حملوں کا بھی سامنا رہتا تھا۔ اناطولیہ ایک ایسا ہی علاقہ تھا جہاں پانی کے دو بدو  بسنے والی تقریبا تمام تہذیبوں نے تاریخ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے جن کا ذکر ہم نے اپنی تمام اقساط میں کیا ۔
 پانی کو زرعی اعتبار سے استعمال کرنے کاآغاز سمیر قوم نے کہا جنہوں نے  پانی کی کینالیوں بنوائیں۔ اس کے بعد بابیل قوم کا دور آیا جنہوں نے اس حوالے سے باغ باغیچوں کی تیاری کی ۔ حطیطیوں نے اناطولیہ میں  بیروج بنانے کی بنیاد رکھی اور  بعد ازاں اورارت قوم نے پانی کی دستیابی کےلیے مختلف طریقہ کار دنیا سے روشناس کروائے۔
ان اقساط میں ہم نے اس کے علاوہ    استنبول   میں پولیو   آبی راہداری کا ذکر بھی کیا جس سے استنبول کو درپیش پانی کی قلت کم کرنے میں مدد ملی ،ہم نے ویلنس آبی گزرگاہ کا بھی تذکرہ کیا۔ پہلے آبی انجینئر  تھالیس  اور اس کے دور میں بنے رومی حماموں کا بھی ذکر ہوا جو کہ پاکیزگی اور سماجی قربت بڑھانے کا وسیلہ بنے۔
 لیکیا  تہذیب کا صدر مقام پتارا جہاں دنیا کا قدیم ترین لائٹ ہاوس ہے وہیں ان کی بنائی ہوئی آبی گزرگاہوں کا حوالہ بھی ہم نے اس پروگرام میں دیا،پرگے کا ذکر ہوا ،اسپیندوس کے تاریخی شہر کا بھی ذکر آیا جس کی آبی طرز معماری اپنی مثال آپ رہی، پاموک قلعہ  اور برگامہ سلطنت کا بھی چرچا رہا جہاں پانی سے علاج کرنے کی ترکیب بھی بتائی۔
 ترک تہذیب کا جب ذکر ہوا  تو اس میں دینی و معماری لحاظ سے نلکوں اور پلوں کی تعمیر اہمیت کی حامل رہی اس کے ساتھ ساتھ تھرمل  آبی وسائل کے ہمراہ انسانی تاریخی کے قدم ترین دریاوں دجلہ وفرات کا بھی تذکرہ کرنا بہتر سمجھا۔

اناطولیہ کی ہزار ہا سالہ  تاریخ کا پتہ لگانا ممکن ہے،اس پروگرام کے وسیلے سے ہم نے وہاں کے آبی نقوش اور ان کی گود میں پروان چڑھی تہذیبوں کا احوال بیان کیا۔ان میں سے کچھ اپنے پیروں پر کھڑی تھیں اور کچھ زمین بوس ہوچکی تھیں۔ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جن کی عالمی تاریخ میں دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔ ہم نے ان تواریخ کے حوالے سے پانی کی قدرومنزلت کا اس پروگرام میں  مختصر سا ذکر کیاکیونکہ ان کےبارے میں جتنا بھی بتایا جائے وہ کم ہےبس ایک ادنہ سی کوشش کرتےہوئے آپ  کو اناطولیہ اور  وہاں موجود پانی سے وابستہ تہذیبوں کے بارے میں بتانا چاہا۔ہمارہی اس کوشش میں  ساتھ دینے والے ہمارے قاریئن اور سامعین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
 نسلی خان دیعیر من جی اولو کے قلم سے تحریر کردہ پروگرام آپ نے  سنا۔


ٹیگز: #پانی

متعللقہ خبریں