تجزیہ 60

ترکی۔ امریکہ تعلقات کو گھمبیر بنانے والے 4 نمایاں معاملات پر ڈاکٹرمراد یشل طاش کا جائزہ

1586963
تجزیہ 60

ترک ۔ امریکی تعلقات  میں آئندہ کے ایام میں 4 اہم رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ ان کو دور کیے بغیر ترکی اور امریکہ کے مابین درپیش  بحران سے نجات پانا  نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔  ان میں ایس۔ 400 کا معاملہ پیش پیش ہے۔  ایس 400 کا معاملہ ترک۔ امریکی تعلقات  کی عکاسی کرنے والی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔  سٹریٹیجک تعلقات  کے طور پر تشریح کردہ اے اور بی ریاستوں کے مابین تعلقات کے  اعتبار سے  اس جیسا مسئلہ پیدا  نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس مفہوم میں  نہ تو امریکہ ترکی کو پیٹریاٹ سسٹم  کے مطالبے کو معلق رکھتا  اور نہ ہی ترکی نیٹو  کے ایک اتحادی ملک کے طور پر  اپنے سب سے بڑے سیکیورٹی و دفاعی رقیب سے  اس طرح کی خرید سر انجام دیتا۔  اس صورت میں ہمارا پہلا  مؤقف  ہے کہ ترک۔ امریکی تعلقات کو ’’سٹریٹیجک شراکت داری‘‘  کے  طور پر پیش نہیں  کیا جانا چاہیے تھا۔  موجودہ  مسائل کو دور کرنے کے لیے دونوں فریقین  میں سے ایک کو اپنی پوزیشن بدلنے یا پھر دو طرفہ طور پر ان کو اپنے اپنے  مؤقف سے باز آنے والے کسی حل چارے کو تلاش کرنا مقصود ہو گا۔

وزیر دفاع خلوصی آقار  کا  جزیرہ کریٹ ماڈل اس مرحلے پر  ایک حل کے طور پر ہمارے ذہنوں میں آتا ہے۔ تا ہم اس حل ماڈل کو صحیح معنوں  میں کس طرح عملی شکل دیے جا سکنے کو سمجھنا قدرے کٹھن کام ہے۔ مزید برآں ترکی کے ایس۔400 کی دوسری کھیپ کی خرید کے لیے بات چیت کو جاری رکھنے والے ایک دور میں کریٹ ماڈل  پر کام کرنا قدرے مشکل ہے۔  آیا کہ امریکہ کے ایس۔400 سے متعلق حل کو ایک واحد متبادل  کے طور پر ان پر مذاکرات کرنا  کیا اس بحران کو حل کر سکے گا؟  کیونکہ ایس۔400نظام کو ترکی سے باہر نکالنے کا فارمولا  ترکی کے لیے سودا بازی کا معاملہ نہیں بن سکتا۔  اس صورت میں ایس۔400 دونوں طرفین کے لیے ایک ناقابل حل معاملہ بنتا جا رہا ہےجسے حل کیے بغیر باہمی تعلقات کی بحالی تقریبا ناممکن دکھائی دیتی ہے۔

دہشت گرد تنظیم وائے پی جی ترکی۔ امریکہ تعلقات  میں غیر یقینی کے ماحول کو مزید شہہ دینے والا ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ وائے  پی جی  کے  حالیہ ایام میں  شمالی شام میں بڑھنے والے  دہشتگرد   حملے، بائڈن انتظامیہ اور امریکی اداروں  کے وائے  پی جی سے متعلق موجودہ  مؤقف کو مد نظر رکھنے سے ترک۔ امریکہ تعلقات میں ایس ۔400  کا موجب بننے والے نظریاتی   اختلافات    میں وسعت آنے کا مشاہدہ ہوتا ہے جو کہ ترکی کو کسی نئے فوجی اقدام پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔  اس معنی میں وائے پی جی کا مسئلہ محض   ایک حربہ کاروائی کے طور پر امریکہ کے شام میں  ترکی سے ہم آہنگ نہ ہونے  کے سبب سے آگے بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات   کے تمام تر پہلووں کا تعین کرنے والی کسی نئی رکاوٹ   کو جنم دے رہا ہے۔ ایس ۔400 کی طرح کسی ایک فریق کو اس معاملے میں بھی اپنا مؤقف بدلنا ہو گا ۔ یا تو    امریکہ وائے پی جی کی پشت پناہی سے باز آتے ہوئے  انقرہ کی پوزیشن کے قریب آئے گا یا پھر  ترکی وائے پی جی   سے متعلق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے  امریکہ کی وائے پی جی کو سیاسی حیثیت دلانے کی کوششوں کی منظوری دے گا۔  موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے اپنی اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے  کی ترجیح  سے پتہ چلتا ہے کہ وائے پی جی کا معاملہ  بھی ایک گھمبیر معاملے کی ماہیت اختیار کر لے گا۔

ایس۔400 اور دہشت گرد تنظیم  وائے پی جی  کے علاوہ  مشرقی بحیرہ روم کا معاملہ بھی ترک۔ امریکی تعلقات کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔  اس معاملے میں ترکی قبرصی ترکوں کے حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو مرتب کر رہا ہے تو   امریکہ اسے ایک علاقائی جیو پالیوٹیکل معاملے کے طور پر بیان کرتا ہے۔  جس سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات مزید گہرائی پکڑ رہے ہیں ۔  ترکی حق بجانب طور پر اپنے مؤقف پر اٹل ہے تو امریکہ کا اس معاملے میں دباؤ بے جا ہے جس سے دونوں فریقین کے درمیان  ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے۔

اوپر بیان کردہ  مسائل  کے علاوہ دہشت گرد تنظیم فیتو کا معاملہ ، پابندیاں اور قریب آنے والے ترکی مخالف مقدمات  ایک ساتھ مل کر ترکی کے لیے ایک چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔  امریکی کانگرس کی موجودہ پالیسیاں ان مسائل کو حل کرنے سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں۔   امریکی  کانگرس کے ارکان کے بیانات  اور صدر ایردوان کو ہدف بنائے جانے والے الفاظ کو بالائے طاق رکھنے سے  یہ کہنا ممکن ہے کہ امریکی کانگرس اوپر بیان کردہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے  انہیں مزید طول دینے کے درپے ہے۔

بائڈن انتظامیہ  کا اداروں کے ہمراہ خارجہ پالیسیاں  مرتب کرنے کے مؤقف   کو بھی ان میں شامل کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن  کانگرس کی حمایت لینے کے لیے ترکی کی طرح کی فائلوں  پر توقعات سے ہٹ کر  کسی پوزیشن کو وضع کرنے میں مصروف ہیں۔

ترکی فائل میں کانگرس خارجہ پالیسیوں کا  غیر جانبدار مؤقف اور  امریکی خارجہ پالیسیوں کے ڈھانچے میں ایکو۔ سسٹم    ترکی کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور  یہ ترکی۔ امریکہ تعلقات  کے  ہر پہلو کو کانگرس  کے سائے تلے  دھکیل رہا ہے۔



متعللقہ خبریں