لب آب سے آئی تہذیب

20.01.21

1566812
لب آب سے آئی تہذیب

اناطولیہ ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک پل کی مانند ہے  جہاں سے  مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی جانب آمدو رفت رہتی ہے۔ اس راستے سے متعدد تہذیبوں کا گزر ہوا جو کہ ہزارہا سالوں سے دونوں براعظموں کے مابین تہذِ یب و تمدن کا مرکز رہا ۔
قدیم دور سے اس طرح کے پل   انسانوں ،شہروں اور ممالک کو آپس میں ملاتے رہے ہیں۔۔یہ پل  پر سکون یا شور مچاتے دریاوں  پر جب قائم ہوئے تو  وہاں ہوئی جنگوں ،جدائیوں اور ملاپوں کے گواہ بنے۔ ان پلوں کو بعض اوقات  گزرگاہوں اور بعض اوقات وسیع دریاوں کے کناروں کو عبور کرنے کے لیے ب تعمیر کیے جاتے رہے ۔ اناطولیہ میں اس قسم کے کافی پل موجود ہیں جو ہمیں  تاریخ کا پتہ دیتے ہیں۔

  پانی سے وابستہ  انسانی زندگی  ابتدائی تہذیب میں ان پلوں کی تعمیر میں مشکل کا شکار تھی، پہلے پہل درختوں کے تنوں کو آپس میں باندھ کر   وادیوں اور ندی دریاوں  سے گزرنے کے لیے پلوں  کو بنایا گیا مگر ان کا استعمال  محدود رہا جن میں جدت پسندی کے لیے  نت نئے طریقے اختیار کیے گئے جن میں چٹانوں   یا  درختوں کے تنوں کو پلوں کو سنبھالنے  کےلیے کھڑا کیا گیا اور  درختوں کی چھال سے انہیں باندھا گیا اور ہچکولے کھاتے پل بنائے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوہے  کا استعمال شروع ہوا اور زنجیروں کی مدد سے ان پلوں کو سہارا دیا گیابعد میں  ان میں سیمنٹ،فولاد اور لوہے کا بھرپور استعمال کرتےہوئے انہیں مزید مضبوط بنایا گیا۔
 تاریخی ذرائع ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا کا سب سے پہلا پل چین میں بنایا گیا تھا مگر اس سے متعلق کسی قسم کے شواہد موجود نہیں ہیں لہذا  یہ خیال ظاہر ہے کہ  دنیا کا قدیم ترین پل سمیر قوم کا تعمیر کر دہ تھا  جس کے کھنڈرات پانچ ہزار سال پرانے ہیں او رجو عراق میں موجود ہے۔ البتہ   رومی قوم کو اس کام میں کافی مہارت حاصل رہی  اور انہوں نے اناطولیہ میں ادانہ کے تاش پل، ازمیر کے کاروان پل اور آدیامان کے جندرہ پل  تعمیر کیے جو کہ   انسانی تاریخ کے قدیم ترین پل شمار ہوتے ہیں۔

ابتدائی ادوار میں ان پلوں کا استعمال صرف  دو کناروں کے درمیان   گزرگاہ کے لیے کیا جاتا رہا  بعد میں انہیں عسکری و تجارتی راستوں کے لیے استعمال کیا۔اٹھاوریں صدی کے دوران  لکڑیے سے ان پلوں کو بنایا جاتا تھا مگر صنعتی انقلاب کے بعد  لوہے اور فولاد کا استعمال کرتےہوئے انہیں مزید پختہ  تعمیر کیا جانےلگا۔ دور حاضر میں ان پلوں کی طوالت و وسعت جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کی بدولت  قابل ذکر ہے۔

 اناطولیہ میں  رومی اور بانزطینی ادوار میں تعمیر کردہ کافی پلوں کے کھنڈرات ملتے ہیں مگر ترکوں کے اس علاقے میں وارد ہونے کے بعد  پلوں کی تعمیر میں اضافہ ہوا،انہوں نے پہلے مشرقی  اناطولیہ  اور بعد میں   وسطی اناطولیہ میں پل تعمیر کیے جن میں سے ایک کا نام ملاآبادی ہے جس کی وسعت انتالیس میٹر ہے جو کہ  استنبول میں معمار سنان  کی طرفر سے تعمیر کردہ سلیمانیہ جامع مسجد کے گنبد   کی چوڑائی سے بارہ میٹر زیادہ ہے۔
یہ پل ضلع دیار بکر میں  واقع ہے جسے آرتوک قوم نے بنایا تھا۔ باتمان ندی پر بنائے گئے اس پل پر  مسافروں   کے آرام کی غرض سے  دو کمرے بھی تھے  جو کہ نوسو  سال سے اپنے پیروں پر آج بھی کھڑا ہے۔ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اس پل کا نام  بھی شامل ہے۔

 عثمانی دور  کے آغاز سے پلوں کی تعمیر میں اضافہ ہوا،فتوحات کے بعد  ریاستوں کی وسعت کو مد نظر  رکھتےہوئے عثمانی فوج  کی آمدو رفت کےلیے پل بنائے گئے۔سلطان سلیمان خان المعروف قانونی  کے بوگدان نامی سفر  کے دوران دریائے پروت  پر عثمانی فوجیوں نے محض تیرہ روز میں لکڑی سے پل بنایا جو کہ اس محاذ آرائی کی کامیابی کا بھ حصہ  رہا۔ اس پل کی تعمیر میں مصروف شخص کو معمار اعلی کا درجہ دیا گیا    جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ معمار سنان ہی تھے ۔
معمار سنان کا نام صرف ترک فن معماری میں ہی نہیں بلکہ  عالمی   فن معماری میں بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اہم معماروں میں شمار لا  کور بوسیئر کا   کہنا ہے کہ   معمار سنان کا شمار  انسانی تاریخ کے دو بہترین معماروں میں  سے ایک کے  طور پر ہوتا ہے۔
معمار سنان مساجد کی تعمیر  کے علاوہ  پلوں کی تعمیر میں بھی کافی شہرت رکھتے ہیں۔ ان سے پہلے  انسانوں  اور جانوروں  کی آمدورفت کے لیے الگ الگ پل بنائے جاتے تھے مگر سولہویں صدی میں ان کے تعمیر کردہ پلاتنے مضبوط تھے کہ ان پر سے عثمانی فوج کی  بھاری بھر کم توپیں بھی با آسانی گزر جاتی تھیں۔
استبول  میں واقع بویوک چقمجہ جھیل پر قائم قانونی سلیمان خان پل معمار سنان کے شاہکاروں میں شامل ہے جو کہ جھیل  کو سمندر کے ساتھ  ملاتا ہے۔ ایک دیگر پل ضلع قرق قلعہ میں ہے جسے سنانلی پل کہا جاتا ہےجو کہ ان کا تعمیر کردہ سب سے بڑا پل بھی ہے۔ اس کے علاوہ قمر برغاز میں  علی بے ندی پر قائم پل بھی ان کی تعمیرات کا حصہ ہے  جو کہ اپنی مثال آپ ہے ۔
 معمار سنان ارضیاتی ساخت  اور   متوقع آفات کے پیش نظر اپنی  تعمیرات بالخصوص مساجد  میں ہوا کے گزر اور  ان میں گرمائش کے اتتظام کو ممکن بنانے کا خاص خیال رکھتے تھے۔  دنیا کےجن مشہور ماہر تعمیرات نے معمار سنان کے شاہکاروں  پر تحقیق کی وہ ان کی  خداداد صلاحیتوں اور فنی مہارت کے معترف ہو گئے۔

 بعض ذرائع کے مطابق، دنیا کا سب سے طویل ترین  پتھروں سے بنا پل  ضلع ایدیرنے کا اوزون کوپرو ہے ۔  چیفتہ کوپرو ایک دیگر پل ہے جو کہ بحیرہ روم کے   ندی نالوں پر  تعمیرکیا گیا تھا۔ اناطولیہ میں سلجوکوں نے  قزل ارماک پر اپنا پہلا پل کھڑا کیا جس کا  نام  تک گوز  ہے۔ اناطولیہ میں جس جگہ بھی جانا ہو وہاں  آپ کو ایک پل ضرور ملے گا جو کہ اپنے دور کی ٹیکنالوجی اور فنی مہارت کا ترجمان رہا ہے۔ یہ پل صرف  انسانی و حیوانی آمد و رفت کے لیے ہی  نہیں بلکہ    تاریخ کے ادوار کو آپس میں منسلک کرنے کا بھی ذریعہ بنتے آئے ہیں۔
آج ہم نے  اناطولیہ  میں بنے پلوں   اور دیگر تعمیرات  کے حوالے سے  عالمی شہرت یافتہ  ترم معمار سنان  اور ان کی فنی مہارتوں کا ذکر کیا



متعللقہ خبریں