تجزیہ 49

ایرانی نکلیئر سائنسدان کے قتل کے اسرار روموز ماہر کے قلم سے

1539803
تجزیہ 49

! مشرق وسطی، ایران  کے جوہری پروگرام کا سنگ بنیاد ڈالنے والے سائنسدان محسن فخری زادہ   کے قتل سے ہل کر رہ گیا۔

سیتا خارجہ پالیسی تحقیقاتی امور کے محقق جان اجون کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

محسن فخری زادہ کے قتل کے  بعد متعدد دعووں نے جنم  لیا ہے تو تمام تر اشارے  اور توجہ اسرائیل کی ہی جانب مڑتی   ہے۔ ایران  کے اس سانحہ کے بعد رد عمل کے بارے میں تجسس پایا جاتا ہے تو   اس حملے کا ایران کے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھنے  کی پالیسیوں کے حامل جو بائڈن  کے امریکی صدارتی کرسی سنبھالنے  سے قبل وقوع پذیر ہونا اہمیت رکھتا ہے۔

ماضی قریب کی جانب مڑتے ہوئے جائزہ لینے سے اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ  ایران کی جوہری حرص امریکہ سمیت اسرائیل اور خلیجی ممالک کے لیے خدشات پیدا کرتی تھی۔ ایران کے جوہری اسلحہ  کے مالک بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے  کے  لیے متعدد حربے استعمال کیے گئے ایک جانب سے امریکی  پابندیوں کے خطرات اور دوسری جانب سے  طرح طرح کی سبوتاژ  کی کوششیں اور گاہے بگاہے سائنسدانوں کے خلاف قاتلانہ  حملے اس ملک  کے لیے وبال ِ جان بنے رہے۔ تا ہم اوباما کے دور میں ان پالیسیوں میں ایک نئے باب کی داغ بیل ڈالی گئی اور ایران کے ساتھ  مذاکرات کی میز پر بیٹھا۔ طرفین  یورپی یونین کی بھی کوششوں  سے کسی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ایران نے جوہری پروگرام  سے متعلق شفافیت کے ساتھ ساتھ مختلف حد بندیوں کو بھی قبول کر لیا۔ تا ہم  یہ صورتحال اسرائیل اور نہ ہی سعودی عرب کی طرح کے خلیجی ممالک کے  لیے تسلی بخش ثابت ہوئی۔  انہوں نے ایران کو معاہدے کی آڑ میں علاقے میں اپنے اثرِ رسوخ کو بڑھانے کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا مورد ِ الزام ٹہرایا۔ اس اعتبار سے انہوں نے  صدر  اوباما کے بر خلاف  اہم سطح کی لابی سرگرمیاں شروع کر دیں تا ہم یہ کہنا نا ممکن ہے کہ یہ کوششیں  نتیجہ خیز ثابت ہوئی تھیں۔  لیکن ٹرمپ  کے بر سر اقتدار  آنے کے بعد حالات میں تبدیلیاں آنی شروع ہو گئیں۔

اسرائیلی اور خلیجی ممالک  کی جانب سے ٹرمپ کو مختلف طریقوں سے آمادہ کرنے  پر وائٹ ہاؤس انتظامیہ  نے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوتے ہوئے  ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسیوں کے دائرہ کارمیں  اس پر سخت پابندیاں عائد کردیں ۔ ایران  نے  اس سے قبل کی حدود کو پار کرتے ہوئے جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ  اس پیشرفت  کا جواب دیا۔ اسرائیل اور سعودی عرب  کی ٹرمپ پر ایران  کے خلاف عسکری کاروائی کرنے کے معاملے پر دباؤ اور کوششیں بے سود  ثابت ہوئیں۔

اب ٹرمپ صدسرتی انتخابات میں ناکام ہوچکے ہیں اور ایران کے بارے میں اوباما دور میں  ملکی انتطامیہ کے مؤقف سے مشابہ مؤقف کے حامل بائڈن بر سر اقتدار آرہے ہیں۔دوبارہ سے جوہری مذاکرات شروع کیے جا سکنے  اور ایران پر سخت پابندیوں کے ہٹائے جا سکنے کی مساوات مذکورہ اتحاد کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ ایرانی نکلیر سائنٹسٹ محسن   فخری زادہ کا قتل اس نئے ماحول  کے دوران وقوع پذیر ہوا  ہے۔  ایران  کو جواب دینے میں مشکل سے دوچار بائڈن  اولین طور پر کشیدگی کو مزید شہہ دیتے ہوئے حتی  کسی جھڑپ کےماحول کو پیدا کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ ایران نے اپنے رائے عامہ کے سامنے  فخری زادہ  کے قتل کا بدلہ لینے  کا بیان جاری کیا  ہے تو بھی یہ حکمت عملی صبر کا دامن ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے۔ تا ہم  متعلقہ اتحاد ایران کو جواب دینے کا انتظار کیے بغیر ہی کسی نئے حربے کو اپنا سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں