لب آب سے آئی تہذیب

11.11.20

1525349
لب آب سے آئی تہذیب

انسان ہمیشہ  سے دماغی استعمال سےکامیابی حاصل کرتا آیا ہے۔ تاریخ ایسے مشکل مراحل سے بھرا ہے جس میں صاف پانی کی رسائی قابل ذکر ہے۔
بنی نوع انسان نے آباد ہونے کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جو کہ پانی کے کنارے تھے لیکن آبادی میں اضافے کے باعث لوگ کناروں سے دور ہوتے گئے جس کی وجہ سے پانی تک رسائی کے لیے انہوں نے ترقی   پسندانہ اور جدید طریقوں کا سہارا لیا۔بنی نوع انسان نے  اس کے لیے مختلف تعمیرات  کیں اور موسموں کی تبدیلی کے پیش نظر بیراجوں  اور نہروں کا استعمال کیا،برف اور بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کیا اور انہیں نالیوں کے ذریعےشہروں کے پہنچایا ۔آج ہم  پانی کے ان ذخائر کے حامل تالابوں کا ذکر کریں گے۔

تالابوں  کا استعمال سب سے پہلے زرعی علاقوں میں آب پاشی کے لیے کیا گیا جہاں آبادی خشک علاقوں میں رہتی تھی انہوں نے برف اور بارشوں کے پانی کو جمع کرنے کے لیے ان تالابوں کو کھودا اور زراعت  کےلیے استعمال کیا۔انہوں نے حسب ضرورت بند یا کھلے تالاب بنائے جس میں مختلف تکنیکوں کو استعمال  ہوا۔دنیا کے قدیم ترین پانی کے تالاب پیرو  کے نازکا نامی صحرا میں پائے جاتے ہیں۔
 پانی کے یہ تالاب آبادی میں اضافے کی وجہ سے بنائے گئے تھے جو کہ صرف دیہی علاقوں میں نہیں بلکہ شہروں کے مختلف علاقوں میں  بھی موجود تھے۔
اناطولیہ میں مختلف ادوار اور شہروں میں تالاب موجود ہیں حطہ طوشہ میں حطیطی دور کے دوران بنائے گئےتالاب اور مرسین کے کوریکوس نامی تاریخی شہر میں موجود قبل مسیح سے پہلے کے تالاب اس کی مثال ہیں۔ فتحیہ میں تلمیسوس کے قدیم شہر میں موجود تالاب بعد مسیحی دور میں بنائے گئے تھے۔یہ تالاب  پانی کے وسائل سے دور آبادی  کے لیے  ہیں نہیں بلکہ شہر کے قریبی علاقوں میں بھی موجود تھے جس کی وجہ  اناطوولیہ کے شہروں پر مسلسل حملوں کا جاری رہنا تھا۔ کسی شہر پر قبضے سے پہلے دشمن وہاں پانی اور خوراک کی رسائی کے راستوں کو روکتا ہے ،جب آبادی بھوکی پیاسی رہتی تھی تو وہ مجبورا  محکوم ہو جاتی تھی اسی وجہ سے شہر کے قریبی علاقوں میں تالاب بناتے ہوئے اس صورت حال سے بچنے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ  مرسین اور سیلیفکے کے درمیان کوری کوس  ایک ساحلی شہر ہونے کے باوجود  تیس کے قریب تالابوں کا حامل تھا،ارسطو کے خیال میں زمانہ جنگ   اور زمانہ امن کے دوران تالابوں کی ضرورت  مقدم  ہوتی ہے۔

ذرا سوچئےایک شہر  روز اول سے پانی کی قلت کا شکار  اس پر کجا  طویل عرصے  سےقبضے  سے بھی متاثر رہا۔یہ شہر تین سلطنتوں کا صدر مقام بھی رہا ہو  ،جی بالکل یہ استنبول ہے جو کہ تین جانب سے سمندر میں  گھرا ہونے کے باوجود آبادی کے تناسب سے پانی کی کمی کا شکار رہا ہے۔وہاں پانی کی رسائی تالابوں کے ذریعے ممکن بنائی گئی جن کی اکثریت زیر زمین ہے۔بازنطینی دور میں یہ تالاب زیر زمین تھے جن کے رساو کو روکنے کےلیے خاص قسم کاپلستر استعمال ہوتا تھا۔آج کے دور میں ان تالابوںمیں سے بیشتر گودام،موٹر گاڑیوں کےمرمت خانے یا ریستورانوں میں بدل چکے ہیں۔
اس دور کے تالاب انسانی مہارت اور فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے ۔یہ تالاب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  مٹی اور گارے سے بنے پائپوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملا دیئے گے تاکہ شہر میں پانی کی قلت دور جا سکے۔
ابتدائی ایام سے زیر زمین تالابوں میں استعمال ہونے والے مواد ،رقبے اور فن معماری کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ان میں   سیسترنا باسیلیکا اور سلوکسینوس نامی قابل ذکر ہیں۔، سیسترنا باسیلیکا   باون پائیدانوں  کی حامل ہے۔اس تالاب  کے اطراف میں تین سو چھتیس سنگ مرمر  سے بنے ستون ہیں جسے  مقامی لوگ زیر زمین محل سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ تالاب ایک لاکھ ٹن پانی جمع کرنے کا اہل ہے  جس کی سیر کرنے سے انسان اس دور  کی گرد آلود تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ تالاب فتح استنبول کے  بعد کچھ عرصے تک استعمال ہوتا رہا  البتہ،جمع پانی کے بجائے عثمانیوں نے بہتے پانی کو ترجیح دینے  کےلیے بعض اقدامات کیے  جس کے بعد یہاں سے پانی کی دستیابی بند ہو گئی۔آج یہ تالاب سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ استنبول  میں ایک دیگر تالاب سلوکسینوس  ہے جس میں دو سو بارہ ستون ہیں   جو اب ایک عجائب خانہ ہے۔

 استنبول کے علاوہ اناطولیہ کےدیگر علاقوں میں بھی تالاب ہیں جن میں سے ایک ماردین کے دارا قدیم شہر میں  ہے جو کہ ڈیڑھ ہزار سال پرانا ہے۔یہ تالاب رومی سلطنت کی مشرقی سرحدوں کے تحفظ  کے لیے قائم شہر دارا میں  واقع تھا۔وہاں موجود تالاب میں ذخیرے  اور اس کی شہر رسائی کے لیے مقدار جانچنے کا نظام بھی موجود تھا جو کہ اس دور کے ماہرین کی ذہانت کا بھی ثبوت تھا۔ رومی عہد کے علاوہ بازنطینی ،سلجوکی اور عثمانی  فن تعمیر کے نمونے بھی ملتے ہیں۔بعض محققین  کے مطابق، دارا میں قائم  میزو پوتامیا دور کا پہلا آب پاشی نظام بھی یہاں موجود ہے۔

 قدیم ادوار سے شروع ہو کر رومی اور بازنطینی دور تک محیط  پانی کی ضروریات  کو شہر تک پہنچانے کےلیے آج ہم نے تالابوں کا ذکر کیا۔

 


ٹیگز: #تالاب

متعللقہ خبریں