تجزیہ 42

ترکی اور روس کی دو طرفہ پالیسیوں کا جائزہ ماہر کے قلم سے۔۔

1510912
تجزیہ 42

روس اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اقتصادی طاقت کے اعتبار سے ترکی کے لیے ہمیشہ ایک اہم ملک  رہا ہے۔ ماضی قریب کا جائزہ لینے سے ترکی کا مغربی بلاک میں جگہ پانا اور روس کی خطے سے متعلق سرد جنگ کی مساوات میں سیاسی اعتبار سے  رقابت اور جدوجہد کا  معاملہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ تا ہم خاصکر آک پارٹی کی حکومت اور 15 جولائی کے بغاوت اقدام  کے بعد متعلقہ پالیسیوں میں تبدیلیاں آنے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ترکی  اب روس  کے ساتھ اپنے تعلقات کو مغربی بلاک اور بلندیوں کی جانب بڑھنے والے چین کے خلاف  ایک توازن کےعنصر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

15جولائی  کے ناکام بغاوت اقدام نے انقرہ کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے پر مجبور کیا۔ در اصل  گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل کے  ساتھ  ہمارے تعلقات، گیزی واقعات ، فیتو دہشت گرد تنظیم کی بیرونی معاونت اور شام سے متعلق پالیسیوں  نے ترکی  کے مغربی  ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات کو منفی طور پر متاثر کرنے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ یہاں پر ایکو۔ پولیٹک اور عسکری میدان میں بلندی کی جانب بڑھنے والے اور کہیں زیادہ  خود مختار، اپنے مفادات کو مرکزی محور کی جانب موڑنے  والے ایک طاقتور  ترکی کے مغرب کی جانب سے ہضم نہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس اعتبار سے باہمی تعلقات کے کشیدگی کا شکار ہونے والے ایک دور میں فیتو کے بغاوت اقدام  سے براہ راست  یا پھر ڈھکے چھپے طریقے سے تعاون  نے ترکی کو خارجہ پالیسیوں میں توازن قائم کرنے کی جستجو  کی جانب دھکیلا تھا  اور  بعد ازاں چین کے ہمراہ روس کے بھی نمایاں ممالک کے طور پر ترکی کے تعلقات نیٹ ورک میں جگہ پانے کے عمل کے آغاز کا بھی مشاہدہ ہوا تھا۔ شام میں  سلسلہ آستانہ کے دائرہ عمل میں جاری شراکت داری، لیبیا  اور جھڑپوں کے دیگر علاقوں  میں جاری مذاکرات کے ساتھ ساتھ  دفاعی صنعت اور جوہری توانائی  میں قائم تعاون  ترکی کے لیے اہم عنوانات کے طور پر  ابھرے تھے۔  لیبیا اور ترکی کی جانب سے تشکیل دیے گئے تعلقات،  بنیادی طور پر امریکہ کی  غیر مہذب ، یکطرفہ پابندیوں کی پالیسیوں کے باعث رونما ہونے والے ماحول  کے سامنے کسی مشترکہ جواب کا مفہوم  رکھتے ہیں۔

یہ بات  عیاں ہے کہ دونوں ممالک کے مابین فی الحال   پکے اتحادی تعلقات یا پھر حکمتِ عملی شراکت داری کا ذکر کرنا نا ممکن ہے۔  شا م اور لیبیا میں مشترکہ مفادات بھی اہم ہیں۔ روس  کا کردوں کے مسئلے پر نقطہ نظر انقرہ میں گہرے خدشات پیدا کر رہا ہے۔ تا ہم ان تمام تر چیلنجز کے باوجود مغربی ممالک سے  درپیش خطرات ان دونوں ممالک کو مل جل کر حرکت کرنے پر مجبور  کر رہے ہیں۔ ترکی کے  لحاظ سے روس اور چین کے ساتھ قائم ہونے والے نئے تعلقات نیٹ ورک کو مکمل طور پر کسی متبادل محور کی جانب سرکنے کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔   بلکہ اسے  دائروی  معنوں میں ترکی کے مغرب۔ مشرق توازن کو قائم کرتے  ہوئے  اپنے مفادات کو ممکنہ حد تک بلند سطح تک لیجانے  والے کسی نئے توازن کے قیام کی کوششوں کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔



متعللقہ خبریں