پاکستان ڈائری 35

روایتی ڈاک کے نظام اور موجودہ خبر رسانی نظام کے درمیان موازنہ جویریہ صدیقی کے قلم سے

1480945
پاکستان ڈائری 35

ایک زمانہ تھا جب انٹرنیٹ نہیں ہوتا تھا تو پیغام رسانی کا سارا درومدار محکمہ ڈاک پر ہوتا تھا لوگ خط اور تار کے زریعے سے پیغام بھیجا کرتے تھے۔پھر ٹیلی فون ٓاگیا لیکن شوقین لوگ پھر بھی خط وکتابت کے لئے محکمہ ڈاک کا رخ کرتے۔منی ٓاڈر یہاں سے جاتا، عید کارڈ بھیجے جاتے،خط لکھے جاتے ، کتابوں کی رجسٹری ہوتی ، مصنف اپنے ٓارٹیکل پوسٹ کرتے ،کوئی باہر کے ملک سامان بک کرانے ٓاتا تو کوئی اپنے ضروری کاغذات کا منتظر ہوتا۔ڈاک خانے کا عملہ اور ڈاکیہ علاقے کے محل وقوع سے ایسے واقف ہوتے کہ اگر نامکمل بھی پتہ بھی کوئی لکھ دیتا لیکن خط پھر بھی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ۔جی پی او عام ڈاک خانے سے بڑا ہوتا اور وہاں جدید سہولیات کے ساتھ کام ہوتا لوگ بڑی تعداد میں وہاں کا رخ کرتے یوں پیغام رسانی کا سلسلہ چلتا رہتا۔اس کے ساتھ پاکستان پوسٹ اہم دنوں پر یادگاری ٹکٹ جاری کرتا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

جب میں چھوٹی تھی تب سے اخبارات میں بچوں کے لئے مخصوص صفحوں کے لئے لکھ رہی ہو میں تحریر لکھ کر لفافے میں بند کرکے پوسٹ ٓافس جاتی اور انکل اس پر اسٹیمپ لگا دیتے میں ٹکٹ کے پیسے پے کرکے اپنی کہانی اور تحریر لیٹر بکس میں ڈال دیتی تھی اپنی تحریر لیٹر بکس میں ڈال کر جو سرور محسوس ہوتا وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا ۔ اس وقت بہت فخر محسوس ہوتا تھا جیسے بہت بڑا معرکہ مارا ہو۔عید پر اپنے رشتہ داروں اورکزنز کو عید کارڈ پوسٹ کرتے گرمیوں کی چھیٹیوں میں ہم جماعتوں کو خط لکھے جاتے۔اکثر رنگ برنگے مارکز سے خط لکھتے امی کہتی بال پوائنٹ استعمال کرو کہیں روشنائی پھیل نہیں جائے۔امی نے گھر پر بہت سے بچوں کے رسالے ہمارے لئے لگوا رکھے تھے جب ڈاکیا انکل ہماری ڈاک کر ٓاتے تو بہت خوشی ہوتی۔وہ بہت الگ انسان تھے لمبا قد خاکی وردی سر پر ٹوپی کان پر پین اٹکا رکھا ہوتا تھا اور ایک بڑا تھیلا اپنی سائیکل پر رکھا ہوتا تھا۔ سب کو انکو ڈاک گھر گھر پہنچا دیتے تقریبا پندرہ سال انہوں نے ہمارے سیکٹر میں ڈیوٹی دی اور سردی گرمی کےباوجود دل لگا کر اپنا کام کیا۔

محکمہ ڈاک میں سب اسے اہم شخص ڈاکیہ ہی ہوتا تھا کیونکہ اس کے زمہ ترسیل ہوتی ہے وہ علاقے سے واقف ہوتا ہے علاقہ مکین اس سے واقف ہوتے ہیں اس لئے ڈاک گم ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔پرانے وقتوں میں جو لوگ پڑھ نہیں پاتے تھے انکو خط بھی ڈاکیے خود ہی پڑھ کرسناتے تھے۔پھر وقت تبدیل ہونے لگ گیا انٹرنیٹ ٓاگیا میں ٓارٹیکل لکھ کر پوسٹ کرنے کے بجائے ای میل پر ٹائپ کرکے بھیجنے لگی۔پرائیوٹ کورئیر کمپنیاں جدید ساز و سامان کے ساتھ میدان میں ٓاگئ اور ان کے رائڈرز گھر گھر سامان موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر پہچانے لگے لیکن کوئی بھی ڈاکیے کی طرح علاقے سے واقف نہیں ہوتا بار بار فون کرکے لوکیشن پوچھتے ہیں یا انکو گوگل لوکیشن سینڈ کرنا پڑتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ محکمہ ڈاک پیچھے ہونے لگا اور نجی کورئیر کمپنیاں زیادہ مارکیٹ کور کرنے لگی لیکن ٓاج بھی دیہات میں دور دراز علاقوں میں محکمہ ڈاک اور ڈاکیوں کی ہی اجارداری ہے۔نجی کمپنیاں صرف بڑے شہروں میں ٓاپریٹ کرتی ہیں اور محکمہ ڈاک ملک کے کونے کونے میں ٓاپریٹ کررہا ہے۔ایسے علاقوں میں ڈاک پہنچ جاتی ہے جہاں زرائع ٓامدورفت اتنے اچھے نہیں ہیں۔جس طرح وقت کے ساتھ باقی سرکاری اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی اس ہی طرح محکمہ ڈاک بھی خسارے میں چلا گیا ۔پہلی بار 2008 میں یہ خسارے میں گیا اسکے بعد 2009 کے بعد خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ریونیو کم ہوتا گیا اور اخراجات بڑھتے رہے۔

پی ٹی ٓائی کی حکومت ٓائی تو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ پورا ملک چند دن میں تبدیل ہوجائے گا۔تاہم ایسا نہیں ہوا راج نیتی اور حکومت کرنا ٓاسان نہیں۔حکومت میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے جن کا کام صرف اپنا مفاد سامنے رکھنا تھا جس سے حکومت اور پی ٹی ٓائی دونوں کو نقصان ہوا۔تاہم جو لوگ اصل میں پارٹی کے کارکن تھے وہ چپ کرکے اپنا کام کرتے ہیں۔پی ٹی ٓائی کے ان دو سالوں میں محکمہ ڈاک نے ترقی کی اور منافع کمایا۔

اس وقت محکمہ ڈاک میں 22000 ریگولز ملازمین ہیں اور باقی 24000دیگر ملازمین ہیں اور ڈاکیہ کی تعداد ۶ ہزار ہے۔جبکے میرے نزدیک ڈاکیوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے یہ بہت کم ہے۔محکمہ ڈاک میں سب سے زیادہ کام ڈاکیے کرتے ہیں اور انکی تعداد کا اتنا کام ہونا حیرت ناک ہے۔جب پی ٹی ٓائی کی حکومت ٓائی تو پاکستان پوسٹ کا خسارہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔لوگ محکمہ ڈاک کے بجائے پرائیوٹ کمپنیوں پر زیادہ انحصار کرتے تھے ۔میں کچھ عرصہ قابل جی پی او گئ تو مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ محکمہ ڈاک میں جدید تبدیلیاں ٓائی تھیں۔ای ٹرینکنگ سے مجھے پارسل کی لوکیشن دیکھنے میں ٓاسانی ہوئی۔ یو ایم ایس سروس کو پورے پاکستان میں شروع کیا گیااور ای ایم ایس پلس سروس کے زریعے پوری دنیا میں سامان بھیجا جاسکتا ہے۔

مراد سعید کہتے ہیں جس وقت میں نے چارج لیا محکمہ ڈاک خسارے میں تھااب ہماری ترجیح اسکی ترقی ہے جس میں ڈیجیٹل فرنچائز پوسٹ ٓافسسز کا قیام عمل میں لایا گیا اور پورے پاکستان میں ایک لاکھ کے قریب دفتر بنائے جائیں گے۔ان میں جدید ٹیکنالوجی اور تیز سروس صارفین کو فراہم کی جائے گی۔پاکستان پوسٹ نے اپنے ایپ ٹریکنگ اور معلومات کا فائدہ لینے کے لئے مختلف برینڈز سے ای کامرس ڈیلیوری پاڑنرز کا معاہدہ کیا ہے اس وقت ۲۰۰۰ برینڈز کے ساتھ محکمہ ڈاک کام کررہا ہے۔

پاکستان پوسٹ کا  اپنا پورٹل لانچ کیا جائے گا۔اس وقت پاکستان پوسٹ کا ریونیو ۱۰ ارب سے بڑھ کر ۱۹ ارب سے تجاوز کرگیا ہے ۔ہماری کوشش ہے تمام نظام مینول سے ڈیجٹل پر منتقل کیا جائے۔پاکستان پوسٹ کے عملے کی ٹرینگ کی جائے گی محکمہ ڈاک کے عملے کے ساتھ ٓائی پیڈ  ہوگے اس سے تمام سروس تک ایکسس ٓاسان ہوجائے گا۔مراد سعید کہتے ہیں پاکستان پوسٹ کےہر ٓافس میں بائیو میٹریکس ، تمام ریکارڈ ، پوسٹل انشورنس کی طرز پر ہوگا یہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہوکر ایف اے ٹی ایف کی ابزوریشن پر پورا اترے گا۔ پاکستان پوسٹ نے ملک کے بڑے شہروں میں سیم ڈے ڈیلیوری کا بھی آغاز کردیا گیا یے اور نشنل بینک نادرا کیوسک سینٹرز کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے ۔

ایزی پیسہ کی طرح ای ایم او سروس دستیاب ہوگی اور پوری دنیا میں پوسٹل سروس کی ای ٹریکنگ ہوسکے گی۔پٹینشنرز کو اے ٹی ایم کارڈ دے جائیں گے اس کے ساتھ محکمہ ڈاک کے ریسٹ ہاوس بھی عوام کے لئے جلد کھولے جائیں گے ۔انشااللہ عوام جلد یہ تبدیلیاں دیکھیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کو مزید نوجوانوں کو حکومت کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ وہ نوجوان بھی اپنی نئ سوچ سے اداروں کو خسارے سے نکال سکیں۔اس وقت محکمہ ڈاک اپنے اخراجات کم کررہا ہے اور منافع بڑھا رہا ہے۔انٹرنیٹ کے دور میں اب بھی محکمہ ڈاک کی اپنی افادیت قائم ہے۔

 

اب پاکستانیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان پوسٹ کا استعمال کریں ،بیرون ملک پاکستانی اپنی رقوم پوسٹل سروسز سے بھیجیں، تحائف کتابیں کپڑے بھیجنے کے لئے پاکستان پوسٹ جائیں پھر ڈاکیہ انکل ٓاپ کے گھر کی گھنٹی بجائیں اور ٓاپ کی ڈاک لے ٓائیں۔پاکستان کی پوسٹ کی ایپ کے زریعے سے ٓاپ اپنے پارسل ٹریک کرسکتے ہیں اور ۵۰ ہزار تک کا منی ٓڈر بھی ٓاپ گھر پر وصول کرسکتے ہیں۔



متعللقہ خبریں