تجزیہ 30

شام میں ترکی اور روس کی گشتی کاروائیوں پر حملہ اور ایک نئے دہشت گرد گروپ کا انکشاف، ایک جائزہ

1461411
تجزیہ 30

شام میں  وسیع پیمانے کی جھڑپیں اور تصادم نہ ہونے کے ایام میں بھی ہرلمحہ اہم پیش رفت  کا مشاہدہ ہوتا رہتا  ہے اور متعدد  اندرونی و بیرونی  اداکار اپنے اپنے مفادات کی روشنی میں عسکری و سیاسی چالیں  چلتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی گرفت کو مضبوط بنانے  کے درپے رہتے ہیں۔  8 سال کا عرصہ بیت جانے والی شام کی خانہ جنگی  کے معاملہ عالمی ایجنڈے  میں اپنی  اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔  بعض اداکار  اپنے حق میں چالیں چل رہے ہیں  تو بعض  اس سے آگے بڑھتے ہوئے ملک  میں جاری افراتفری کے ماحول کو مزید بگاڑنے کے درپے ہیں۔  حالیہ ایام میں ادلیب میں ترک۔ روسی گشتی قافلوں کو ہدف بنایا جانا اسی زمرے میں آتا ہے۔

سیتا  خارجہ پالیسی تحقیق دان جان اجون کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔

مخالف گروہوں کے آخری محاذ کی ماہیت کا حامل اور تقریباً 35 لاکھ شامی شہریوں کے آباد ہونے  والا ادلیب شامی انتظامیہ اور اس کے حمایتیوں  کا ہدف بنتا آیا ہے، یہاں پر ہونے والی جھڑپوں  سے لاکھوں انسانی نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں تو ہزاروں موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ ان حملوں کو ترکی کی مداخلت اور کاروائیوں کےساتھ روکا جا سکا گیا، ترکی اور روس کے مابین طے پانے والی مطابقت کی بدولت علاقے میں فائر بندی کا قیام ممکن بن سکا تھا۔  اس اعتبار سے  ترک اور روسی فوجیوں نے سٹریٹیجک  ایم۔4 ہائی وے پر گشتی کاروائیاں شروع کر دی تھیں اور  انہوں نے قدم بہ قدم ان سرگرمیوں کو وسعت دی تھی۔

ادلیب  علاقے  میں سر انجام دی گئی 20 مشترکہ گشتی کاروائیوں کے  بادامہ تک  وسعت حاصل کرنے کے  بعد 21 ویں گشت کو ماسکو میں وضع کردہ  تمام تر گشتی گزرگاہوں  محیط ہونے اور مشترکہ  کاروائیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ہدف بنایا گیا تھا۔  تا ہم  گشتی گزرگاہوں پر روسی فوجیوں کے خلاف بم  حملہ کیا گیا    جس کے باعث  روس کے ساتھ طے شدہ  گزرگاہوں  پر نگرانی کے عمل کو مکمل نہ کیا جا سکا گیا۔

اس حملے کی ذمہ داری ’’خطاب شیشانی‘‘ نامی ایک تنظیم نے قبول کی ہے۔  اس تنظیم کا نام روس کے لحاظ سےحد درجے لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ چیچن  گروہوں کا حوالہ دینے والی یہ تنظیم روس کو براہ راست پیغام دینے  کے درپے ہے۔ ادلیب اور شام کے دیگر مخالفین کے علاقوں میں خطاب شیشانی نامی  تنظیم غیر معروف ہونے کو مدِ نظر رکھنے سے ہمارے سامنے ایک اہم سوالیہ نشانہ ابھر کر آتا ہے۔   اس تنظیم کے حراسدین نامی القاعدہ  سے منسلک ایک ڈھانچے  کے نام پر اس حملے کا مرتکب ہونے کا احتمال زیر بحث ہے تو  ترک۔ روسی معاہدے کو توڑنے کا مقصد  ہونے والے  کسی  تیسرے اداکار کی کارستانی ہو سکنے  کے  شک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔

ادھر روسی فضائیہ نے ادلیب  میں اس کے خلاف اس حملے کے بعد متعدد فضائی کاروائیاں کرتے ہوئے ادلیب  میں مخالفین کے اڈوں پر بمباری کی ہے تو  بیک وقت باب شہر میں بھی اس کی  بمباری سے  چند شہری ہلاک ہو ئے  ہیں۔  روس کی جانب سے اس کے فوجیوں پر حملے کو ایک موقع میں بدلتے ہوئے ترکی  کے برخلاف  اعتدال پسند مخالفین پر بمباری کرتے ہوئے ماسکو معاہدے کے  کس قدر نازک ہونے کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ بات عیاں ہے کہ  شام کے اندر ترکی اور روس کے کردار کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے  کے درپے ہونے والے اندرونی اور بیرونی اداکار  مسلسل اپنی کارستانیوں میں مصروف رہتے ہیں  اور   اشتعال انگیز کاروائیوں کے ساتھ مسئلے کے حل کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔



متعللقہ خبریں