تجزیہ 18

کورونا وبا اور مشرق وسطی کے تازہ حالات پر ایک جائزہ ماہر کے قلم سے

1410573
تجزیہ 18

کورونا  وبا کے ایک عالمی بحران کی ماہیت  اختیار کرنے اور امریکہ سمیت تمام تر عالمی اداروں کو  ہلا کر رکھ دینے کے باوجود مشرق وسطی میں جھڑپیں اور تصادم بدستور جاری ہیں۔ اقوام متحدہ نے تصادم کے جاری ہونے والے مقامات پر فائر بندی کی اپیلیں کر رکھی ہیں تو لیبیا، شام اور یمن میں خونریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ لبنان میں اقتصادی بحران اور بد عنوانیوں  سے مظاہروں کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے تو عراق میں  بھی حکومت پیٹرول پر دارو مدار ہونے والی معیشت کو سنبھالنے میں تا حال ناکام رہی ہے۔  ان ممالک میں سے خاصکر لیبیا، شام اور یمن میں کورونا مخالف جدوجہد کے بجائے خانہ جنگی  کا بول بالا ہے۔ ان میں کورونا  کے درست اعداد و شمار تک رسائی تقریباً نا ممکن ہے۔  یہاں پر  کورونا اور تصادم   ایک دوسرے میں مل کر رہ گئے ہیں۔عالمی ادارے اس حوالے سے انتباہ سے بڑہ کر کوئی قدم اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔

سیتا سیکیورٹی تحقیقاتی  امور کے ڈائریکٹر اسوسیئٹ پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل تاش کا اس موضوع کے حوالے سے جائزہ ۔۔۔۔

شام میں  کم ازکم 4 علاقوں  کے کورونا کے خلاف  نبر دآزما ہونے کا کہنا ممکن ہے۔ ملکی انتظامیہ کے زیر کنٹرول  علاقوں میں  وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد 45 بتائی گئی ہے۔ ادلیب میں  ماہ  رمضان کی آمد کے ساتھ نمازِ تراویح میں شراکت کی شرح بلند ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس علاقے میں وبا کے اثرات موجود نہیں۔  ادلیب کے گنجان آباد   علاقے اور گہما گہمی سمیت مہاجر کیمپوں میں  وائرس کے خوفناک  نتائج کسی بھی وقت سامنے آسکتے ہیں۔شامی فوج کے زیر ِ کنٹرول علاقوں میں  ترکی   کی مدد  سے وبا کو کنٹرول میں رکھنے کی وسیع پیمانے کی کوششوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ امریکی تعاون یافتہ وائے پی جی/ پی کے کے  کے زیرِ کنٹرول علاقوں  میں  مریضوں کی تعداد قدرے کم ہے۔  کون جانتا  ہے کہ دس برسوں سے خانہ جنگی کے پنجے میں پھنسے  شام  کا کورونا وبا سے دور ہونا اس کی تقدیر میں ہو ۔

تمام تر علاقے میں کورونا کے خدشات  موجود ہیں تو شام میں تصادم جگہ جگہ پر جاری ہیں۔  ان میں سے ایک ادلیب ہے جہا ں پر وبا سے قبل بھی گھمسان کی جھڑپیں ہو رہی تھیں۔  ادلیب نہ صرف   جھڑپوں کے ایک بار پھر زور پکٹر سکنے    کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے ساتھ وبا کے سرعت سے   پھیل سکنے کے خدشے کے ساتھ بھی اہم ہے۔  ترکی اور روس کے مابین ماسکو میں طے پانے والے سمجھوتے کے بعد ایم۔4 اور ایم۔5 شاہراہوں کے شمالی علاقوں میں فوجی وجود میں اضافے کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔  یہ کورونا کے بعد کسی نئی پیش رفت کا سد باب کرنے کے زیر مقصد ایک تدبیر کے طور پر دکھائی دیتا ہے تو بھی  ایسا لگتا ہے کہ ترکی اس سے بڑھ کر اقدامات اٹھائے گا۔  کسی محتمل سیکورٹی زون کا قیام انقرہ کے ایجنڈے سے کبھی بھی خارج نہیں ہوا۔

تا ہم  تحریر الاشام کے   ترکی مخالف مؤقف میں  حالیہ ایام میں سختی آنے کا مشاہدہ ہوا ہے۔  اس کے  اندر شامل بعض گروہوں  نے ماسکو  سمجھوتے  کو  تا حال قبول نہیں کیا اور  اس میں بگاڑ لانے کی ہر ممکنہ چالیں چل رہے ہیں۔  انہوں نے حال ہی میں ترکی کو ہدف بنانے وال ایک حملہ  کیا  جس دوران ایک ترک فوجی شہید ہو گیا ۔  اس بات کا احتمال قوی ہے کہ  ترکی اس حرکت کا کورونا  وبا کے بعد سخت جواب دے گا۔  اسد قوتوں کے حملوں سے  دس لاکھ کے قریب انسان ادلیب  کے شمالی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر  اسد قوتوں  کے  گاہے بگاہے جاری ہونے کو مد نظر رکھا جائے تو  ادلیب کے باسیوں کا کورونا کے باعث گھروں میں ہی قیام کرنا  زیادہ منطقی بات نہیں۔

دوسری جانب ترکی  کا تعاون حاصل ہونے والی شامی قومی فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں پی کے کے/ وائے پی جی کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاصکر چشمہ امن کاروائی علاقے یعنی راس العین  اور تل عبید  کے درمیانی علاقوں میں  داخل ہونے کی کوشش کرنے والے وائے پی جی کے عناصر کو اکثر اوقات جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا  ہے۔ وائے پی جی  ان علاقوں میں لڑائی کر رہی ہے، یہ شہریوں کو ہدف بناتے ہوئے علاقائی استحکام کو بگاڑنے کے درپے ہے۔ عفرین میں اس تنظیم نے 28 اپریل کو ایک ٹینکر کے ذریعے حملہ کیا جس میں  50  سے زائد شہری لقمہ اجل بن گئے۔ ترکی  کے زیر کنٹرول علاقوں میں دہشت گرد حملے  کرنے والی دہشت گرد تنظیم  کو شام کے شمال مشرقی علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ  ان علاقوں  میں داعش نے حالیہ چند ہفتوں میں دہشت گرد حملوں میں تیزی لائی ہے۔

داعش خاصکر شام و عراق کی سرحدوں  پر واقع ریگستانی علاقے میں روپوش ہوتے ہوئے دہشت گرد کاروائیوں کی مرتکب ہو رہی ہے ۔  جو کہ امریکہ کے نہ چاہتے ہوئے بھی وائے پی جی کو مزید امداد و تعاون فراہم کرنے کا مفہوم پیدا کررہی ہے۔کورونا وبا پر پردہ ڈالنے والی شامی انتظامیہ  کو اقتصادی  طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تیل کے نرخوں میں مندی اور  پابندیاں ایران اور روس کو بری طرح متاثر کیے ہوئے ہیں۔  وبا  کے بعد شام آیا کہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے یا نہیں کوئی  جانتا  تا ہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ  تمام تر طرفین  کورونا کے بعد  اپنی اپنی پوزیشن سنبھالنے کے اسے ایک موقع کی نظر سے دیکھیں گے۔

لیبیا کی صورتحال اس سے بھی زیادہ نازک  دکھتی ہے۔ 22 مارچ کو   عام وبا کے جواز میں ملک میں فائر بندی کی اپیل کی تھی تو بھی باغی حفتر  نے اس  پر کان نہ دھرتے ہوئے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔  اس نے  کورونا سے جدوجہد میں مشکلات سے دو چار قومی  مطابقت حکومت  کے زیر کنٹرول  اسپتالوں کو  جان بوجھ کر نشانہ  بنایا  ہے۔ لیکن قومی مطابقت حکومت کی لیبیا فوج نے متحدہ عرب امارات  کا تعاون ہونے والی حفتر قتوں کو طرابلس پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے بھی اہم  یہ پسپا ہونے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود طرابلس کے جنوبی علاقے باغیوں کی تحویل میں ہیں۔  جنرل حفتر نے 28 اپریل کو توبروق کو مرکزی مقام بناتے ہوئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا  اعلان کرتے ہوئے اپنے آپ کو پورے لیبیا کا صدر اعلان کیا ہے۔  تا ہم ماسکو سے جاری کردہ اعلامیہ  کی بدولت حفتر کی اس چال کے سود مند ثابت  نہ ہونے کا اظہار کیا گیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ لاوروف   کا کہنا ہے کہ ’’مذکورہ کوشش‘‘ ایک درست قدم نہیں ہے۔ بن غازی کے عوام  اور قومی اسمبلی بھی اس صورتحال پر بے چینی محسوس کرتی ہے۔  انہوں نے نئے قدافی کو نہ چاہنے  کا کمزور سطح پر ہی کیوں نہ ہو مظاہرہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں  حفتر  کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن یہ چیز لیبیا میں حالات میں بہتری آنے کا مفہوم نہیں رکھتی۔ کورونا، تصادم، تیل کے نرخ، بجلی کی کمی نے لیبیا ئی عوام کی مزاحمت کو توڑ رکھا ہے۔  جس نے معاشرتی طور پر بے چینی اور دباو پیدا کر رکھا ہے۔ یہاں پر عالمی معاہدو ں کی رو سے کسی بھی روڈ میپ  کو عملی جامہ نہیں پہنایا  جا سکا۔ اس بنا پر لیبیا میں حالات بتدریج پیچیدگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

یمن وبا سے قبل  حفظان صحت کے حوالے سے بدترین حالات سے دو چار  تصادم کے علاقوں میں سے ایک تھا ۔ اب  تک محض ایک کیس رپورٹ ہونے والے  اس ملک کی اصلی حالت سے ہر کس لا علم ہے۔

سعودی عرب میں کورونا کے خلاف جنگ کو اولیت دینے  کے باعث اس کی یمن میں عسکری کاروائیاں کچھ  مدت سے جمود کا شکار ہیں ، لیکن یہ ان کے مکمل طور پر خاتمے کا مفہوم نہیں رکھتیں۔

کورونا وبا مشرق وسطی کے جغرافیے میں جھڑپوں کا سد باب نہ کرسکی تا ہم  اسے جھڑپوں کا رخ بدل سکنے والی ایک پیش رفت کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔

 



متعللقہ خبریں