تجزیہ 14

عالمی وبا کے موجودہ اور بعد کے عالمی معیشت اور عالمی نظام پر ممکنہ اثرات، ماہر کے قلم سے

1390781
تجزیہ 14

کورونا وائرس  کی وبا  نے دنیا بھر کو ششدر کرنے کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اس وبا کے کب  اور کس مرحلے پر ٹلنے کے بارے میں قنوطیت اور رجائیت پسندی پر مبنی اندازے بھی  پیش کیے جا رہے ہیں۔ مثبت سناریو کے مطابق  وبا کو ماہ مئی کے اختتام تک کنڑول میں لے لیا جائیگا، جبکہ  قنوطیت پسند سناریو کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔  اس کے مطابق اس چیز کے لیے  ایک سال لگ سکتا ہے  اور اس دوران ایک دوسری لہر کا بھی سامنا کیے جانےکا احتمال ہے۔ دوسری جانب سے اس برے  سنیاریو  کے کثیر الا پہلو نتائج  سامنے آنے کا احتمال بھی قدرے قوی ہے۔ کورونا کے عالمی سطح پر انسانوں کی صحت پر مضر اثرات  کے علاوہ  یہ عالمی معیشت  میں سخت قسم کے جمود  اور ریسیشن کا  بھی موجب بن سکتا ہے۔

وبا  کے اول درجے کے مرکز کی ماہیت اختیار کرنے والے امریکہ کی صورتحال    اس معاملے  کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔  اگر ٹرمپ کے بیانات  پر غور کیا جائے  تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ نے لی گئی تدابیر کے ذریعے20 لاکھ انسانوں کی اموات کا سد باب  کیا ہے۔  تاہم ٹرمپ  کی جانب سے زیر لب لائے گئے اعداد و شمار بھی کافی برے ہیں۔  امریکہ کا خیال ہے کہ وبا سے ایک لاکھ تا دو لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے جائینگے۔ وبا کے مرکزی مقام کی حیثیت سے نکلتے ہوئے صحتیابی اور بحالی کے دور سے گزرنے کا اعلان کرنے والے چین  کے اس سلسلے میں کس حد تک شفا ف ہونے پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ متعدد افراد اور ماہرین چین کے اصل اعداد و شمار کو صیغہ راز رکھنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ ہر ملک  قومی سطح پر وبا کے خلاف نبردِ آزما  ہے  تو بھی اس مسئلے کا حل بین الاقوامی سطح پر ہونا لازمی  ہے۔ تمام تر ممالک اس حقیقت سے آگاہی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اصل زیر بحث لایا جانے والا سوال یہی ہونا چاہیے۔

سیکورٹی تحقیقاتی  امور کے ڈائریکٹر اسوسیئیٹ  پروفیسر ڈاکٹر مراد یشل تاش کا مندرجہ بالا موضو ع پر جائزہ۔۔۔

وبا کے حوالے سے بین الاقوامی تعاون  کاخاصکر فروری اور مارچ میں  مشاہدہ کریں تو اس کے انتہائی خستہ ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر ملک نے اولین طور پر اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کو ترجیح دی۔ صحت کی عالمی تنظیم کی طرح  کی وبا کے معاملے میں مؤثر  اور اہل ہونے والی تنظیم نے بھی لازمی تدابیر اختیار کرنے کے معاملے میں سرعت سے کام نہ لیا۔ جس پر اسے سخت تنقید کا بھی سامنا ہے۔

عالمی تعاون کے معاملے میں اب تک پیش پیش رہنے والے عوامی جمہوریہ چین نے وبا کو کنڑول میں لینے کے دعوے کے بعد متعدد مماک کو امداد کی ترسیل کی۔ اس نے اٹلی سمیت متعدد یورپی ممالک کو شعبہ طب میں امداد روانہ کی۔ یورپی یونین  اس دورانیہ میں فیصلے کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کے معاملے میں  کافی لاغر بنی رہی۔  اٹلی، اسپین اور فرانس کی طرح کے بعض شہروں  کے سرکاری دفاتر سے یورپی یونین کے پرچم کو اُتارتے ہوئے ملکی پرچموں کو لہرایا گیا۔  یورپ کو امدادی ہاتھ بڑھانے والا صرف چین  ہی نہیں روس بھی اس صف میں شامل ہوا ۔ ملکی صورتحال کے بارے میں باوثوق اعداد و شمار نہ بھی ہوں تو بھی روسی فوجی گاڑیاں  طبی امداد کی ترسیل کے لیے اٹلی کی سڑکوں پر دکھائی دیں۔ یہ خطہ یورپ  کے ماضی کے لحاظ سے ایک غیر متوقع پیش رفت ہے۔  ترکی بھی متعدد ممالک کو ان کٹھن حالات میں امدادی سامان فراہم کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ یا درہے کہ چین میں مہلک وبا کے بامِ عروج پر ہونے والے ایام میں ابتدائی امداد روانہ کرنے والا ملک ترکی   ہی تھا۔ انقرہ نے امریکہ سمیت متعدد یورپی  اور مشرق وسطی کے ممالک کو طبی سازو سامان بھیجا۔

عالمی تعاون کا شاید سب سے اہم نکتہ بلا شبہہ وبا کے خلاف جدوجہد ہے ۔  کووڈ۔19 کی ویکسین کی دریافت کے معاملے  میں بعض اچھی خبریں سامنے آئی ہیں تو بھی  تاحال کوئی تسلی بخش حل چارہ سامنے نہیں آسکا۔ مشترکہ طور پر معلومات کو منظر عام پر لانے والے شعبہ جات میں  نمایاں ہے تا ہم اب ممالک عالمی وبا کے خلاف جنگ میں  ویکسین کے اول موجد بننے  میں سرگرمِ عمل ہیں۔  یہ وائرس کی نشاندہی کرنے والی  سبک رفتار اور قابل اعتماد ترین  کٹیں تیار کرنے میں ایک دوسرے کےساتھ  دوڑ لگائے  ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اس  میدان میں بیک وقت عالمی ادویات کی منڈی بھی انتہائی اہم ہے۔ صیغہ راز، اس سلسلے کی طوالت ا ور باوثوق معلومات اس  شعبے میں باہمی تعاون کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔

مہلک وبا  کے خلاف  عالمی تعاون کے بعد  سب  سے زیادہ احتیاج ہونے والا معاملہ معیشت ہے۔ امریکہ 2 ٹریلین سے زائد رقوم مختص کرتے ہوئے وبا کے اقتصادی منفی اثرات کو کم سے کم سطح تک محدود رکھے کا متمنی  ہے۔  عالمی سطح پر اس  وبا کے خلاف نبرد ِ آزما ہونے کے  لیے مختص کردہ رقوم 5 ٹریلین کے قریب پہنچ چکی ہیں۔  البتہ عالمی وبا کے عالمی معیشت پر اثرات  اور تخریب کاری کے  کس حد تک جانے  کی غیر یقینی  کی صورتحال بھی برقرار ہے۔ لہذا عالمی معیشتوں  او عالمی اقتصادی سطح پر خسارے کا تعین کیے جانے  کے بعد  عالمی معاشی نظام کے معمول  پر آنے  کے لیے ایک سال سے زائد کا عرصہ لگے گا۔ اس  دور میں سب سے زیادہ ضرورت ہونے والا امر بین الاقوامی تعاون ہے۔  اس کے لیے چین۔ امریکہ تجارتی جنگ کا فوری طور پر خاتمہ کیا جانا چاہیے اور ان دونوں سپر پاورز کو  اقتصادی نظام پر عمل درآمد کے معاملے میں تصادم کے بجائے باہمی تعاون کو ترجیح دینی  ہو گی۔  دوسری جانب آئی ایم ایف  ، عالمی بینک  اور  دیگر اقتصادی تنظیموں کو کسی مشترکہ جدوجہد لائحہ عمل کا تعین کرنا چاہیے۔

عالمی تعاون میں  ضرورت ہونے والا ایک دوسرا معاملہ جھڑپیں جاری ہونے والے مقامات سے متعلق ہونا چاہیے۔ لیبیا سے لیکر یمن تک  کے مشرق وسطی اور شمالی افریقی علاقوں میں جھڑپوں کا خاتمہ  کرنے کے لیے کورونا کے بعد کے دور میں کہیں زیادہ تسلی بخش اقدامات اٹھائے جانے چاہییں۔  کورونا کی طرح کے تیزی سے پھلنے والی ایک عالمی وبا  کے مہاجرین کے بحران کے ساتھ یکجا ہونے  سے یہ پیش رفت عالمی سیاست کو کسی ناقابلِ علاج پریشانیوں  سے دو چار کرسکتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ عالمی وبا کے اثرات کہیں زیادہ طویل مدت  تک زیر بحث رہیں گے۔ اس وبا کے خاتمے پر ہمیں عالمی نظام پر دوبارہ سے سو چ و بیچار کرنا پڑے گا۔  ان حالات سے سبق سیکھتے ہوئے  بنی نو انسانوں کے پاس اپنی خطاوں کی تلافی کرنے کا ابھی بھی موقع موجود ہے۔۔

 

 



متعللقہ خبریں