پاکستان ڈائری - 36

ایک ذہنی طور پر معذور شخص صلاح الدین اے ٹی ایم جاتا ہے اسکا کارڈ پھنس جاتا ہے اسکو سمجھ نہیں آتا کیا کرے۔وہ مشین توڑ کر کارڈ لے جاتا ہے۔بینک کی طرف سے یہ فوٹیج نکالی گی تو اسکو یہ رنگ دیا گیا کہ ایک چور اے ٹی ایم سے پیسے چراتا رہا

1264041
پاکستان ڈائری - 36

پاکستان ڈائری - 36

نئے پاکستان میں بسا پرانا پاکستان 

رپورٹنگ کے کیرئیر کے آغاز میں جب ایک نیوز پیکج کے لئے مجھے زندگی میں پہلی بار تھانے جانا پڑا تو ایک عجیب خوف طاری تھا۔ایک عجیب سی وحشت وہاں طاری تھی تاہم عملے نے تعاون کیا لیکن میں پھر بھی جلد سے جلد وہاں سے جانا چاہتی تھی۔ایک گھٹن تھی وہاں ایسا ماحول جہاں جرائم پیشہ لوگ کم ازکم ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔دوبارہ پولیس سے واسطہ پڑا جب ائیر بلیو کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر گیا تھا اور کوریج کے دوران ہم سب صحافیوں پر بلاوجہ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا ۔جس کے نتیجے میں بہت سے صحافی لہو لہان ہوگئے اور مجھے بھی پیر پر چوٹ آئی ۔ایک کیمرہ مین کا جبڑا ٹوٹ گیا اور دوسرے کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی گئ۔جب صحافیوں نے احتجاج شروع کیا اور معاملہ پولیس کے سینئر حکام تک پہنچاتو پولیس ہماری خوشامد کرنے لگے کہ ہمیں معاف کردیں ۔

یہ حال اگر اسلام آباد پولیس کا ہے تو باقی ملک کی پولیس سے مجھے ویسے ہی کچھ خاص امید نہیں ہے۔میں قانون کی پابند شہری ہو لیکن ایسا لگتا ہے اس ملک کی پولیس قانون کے پابند نہیں ہے۔ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہو اپولیس کی طرف سے تحریک مہناج اور پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز کے منہ پر گولیاں ماری گئ۔ جس میں ایک حاملہ عورت بھی تھی پولیس نے نہ صرف عورت کی جان لی بلکے ایک ننھی جان کو جو ماں کی کوکھ میں پل رہی تھی اس کو بھی دنیا میں آنے سے پہلے قتل کردیا گیا ۔پھر کیا ہوا ہمیشہ کی طرح کچھ نہیں ۔پولیس ہمیشہ اپنے پیٹی بھائیوں کو بچاتی ہے اور انہیں بھی جن کے ایماء پر قتل و غارت ہوئی۔

کراچی میں نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا وہ بے قصور تھا اسکو کو دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ہر طرف شور مچ گیا سوشل میڈیا پر لوگ انصاف کی اپیل کرنے لگے لیکن پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے میں لگی رہی انصاف جائے تیل لینے۔ اس دوران اور بھی بہت سے واقعات ہوئے،شہری نے بروقت گاڑی نہیں روکی پولیس نے گولی چلا دی ، شہریوں کی موجودگی میں اسلحے کا استعمال جس سے کراچی کی بچی دم توڑ گئ ،جعلی پولیس مقابلے میں شہریوں کو مارنا عام بات بن گی ہے ۔

ایسے ہزاروں واقعات اور ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر نہیں آتے اور عوام پولیس کے ہاتھوں زلیل اور رسوا ہوتے ہیں ۔تحریک انصاف کی جب حکومت آئی تو انہوں نے عوام کو بہت سبز باغ دکھائے اور دعوے کئے ہم سو دن میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنا دیں گے ۔تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سوشل میڈیا کی دنیا اور اصل دنیا میں بہت فرق ہے۔جب سو دن میں تبدیلی نہیں آئی تو یہ کہا جانے لگے ابھی کچھ وقت اور دیا جائے ۔اس ہی دوران ساہیوال میں ہولناک سانحہ ہوا پولیس نے ایک خاندان پر شاہراہ پر فائر کھول دیے میاں بیوی انکی بیٹی اور گاڑی چلاتا پڑوسی موقع پر دم توڑ گئے۔اس ہی گاڑی میں موجود تین کم سن بچے معجزانہ طور پر بچ گئے۔پولیس نے بچوں کو گاڑی سے نکالا اور انہیں آگے سڑک پر لا وارث چھوڑ گئے۔پولیس نے جھوٹ بولا کہ یہ دہشتگرد خاندان تھا جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔چابی کے کھلونے کی مانند سی ایم پھول لے کر ہسپتال تو چلے گئے لیکن اس خاندان کے لیے انصاف اور ریفارمز کےلئے کچھ نہیں کیا ۔

لاہور کی اسماء شوہر کے ہاتھوں پٹنے کے بعد تھانے گئ تو مقدمہ درج کرنے کے بجائے پولیس اس سے رشوت مانگی رہی۔اب پھر پنجاب کی پولیس کا مکروہ کردار سب کے سامنے آگیا اور اب جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے ہوئے 365 سے زائد دن ہو گئے لیکن کہیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔بس مہنگائی زیادہ ہوتی جارہی لیکن ریفارمز کہیں نہیں نظر آرہے ہے۔پولیس کھل کر جرائم کررہی ہے، پولیس غیر قانونی کام کررہی ہے ،پولیس شہریوں کو قتل کررہی لیکن حکومت نام کی چیز نہیں نظر آرہی ۔

ایک ذہنی طور پر معذور شخص صلاح الدین اے ٹی ایم جاتا ہے اسکا کارڈ پھنس جاتا ہے اسکو سمجھ نہیں آتا کیا کرے۔وہ مشین توڑ کر کارڈ لے جاتا ہے۔بینک کی طرف سے یہ فوٹیج نکالی گی تو اسکو یہ رنگ دیا گیا کہ ایک چور اے ٹی ایم سے پیسے چراتا رہا اور منہ سی سی ٹی وی کو چڑاتارہا۔میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس ہی طرح خبر نشر کرنا شروع کردی۔جبکے ویڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ صرف اپنا کارڈ لیتاہے اور چلا جاتا ہے۔پر رنگ یہ دیا گیا وہ چور ہے پولیس نے جب اسکو گرفتار کیا تب بھی وہ عجیب و غریب حرکتیں کررہا تھا اور پولیس نے جب اس پر تشدد کیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا کہ آپ نے تشدد کرنا کہاں سے سیکھا؟

صلاح الدین کا یہ سوال ریاست پاکستان، حکومت اور محکمہ پولیس سے تھا اور اس کا جواب بھی یہ دیں گے۔

اس پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا اس کی کھال ادھیڑ دی گئ،اسکے بازو ،ہاتھوں سے گوشت غائب تھا،جسم پر نیل تھے،اس کے خاندان کے مطابق اسکے نازک اعضاء پر تشدد کیا گیا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس صلاح الدین کو نفسیاتی امراض کے ہسپتال بھیج دیتی لیکن ایسا نہیں ہوا اس پر تشدد کرکے اسکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔

پھر وہ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا جو اسکو چور کہہ رہا تھا اس کے لئے انصاف کی آواز بلند کرنے لگا ۔پولیس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی مجرم ہیں جو اسکو سوشل میڈیا پر چور کہتے رہے۔ہم ایک انتہا پسند قوم ہیں اور بنا تصدیق خبر آگے بڑھا دیتے ہیں ۔اس ہی طرح ہماری پولیس بھی اکثر انتہا پسند، کم تعلیم یافتہ اور بدمعاشی پر اتر آتی ہے۔بجائے کہ ذہنی مریض کے بازو پر لکھے پتے پر اس کے گھر والو کو اطلاع کرتے اسکو علاج کے لئے ہسپتال میں داخل کرواتے پر نہیں پولیس نے اس کو قتل کردیا ۔

یہ ہی پولیس والے اربوں کی چوری کرنے والے کوسیلوٹ مارتے ہیں اور اے ٹی ایم مشین میں سے اپنا کارڈ  نکالنے والے کو قتل کردیتے ہیں ۔عجیب ملک ہے عجیب معاشرہ ہے بڑی چوری حلال چھوٹی چوری حرام ۔بڑی چوری والا لیڈر اورچھوٹی چوری والا چور ۔پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلا پوراسال تو ضائع کردیا ہےاور کوئی پولیس ریفارمز سامنے نہیں آئے ۔

فوٹو شوٹ ،ٹویٹس، فیس بک پوسٹ اور چابی کے کھلونوں سے تبدیلی نہیں آئے گا۔تبدیلی کے لئے انصاف کو عام کرنا ہوگا ۔

 



متعللقہ خبریں