تجزیہ 17 (سری لنکن ٹیرنٹزم)

سری لنکا میں دہشت گرد حملوں کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1189205
تجزیہ 17 (سری لنکن ٹیرنٹزم)

نئےہفتے کا آغاز ایک تازہ دہشت گرد حملے سے ہوا ہے۔ اب کی دفعہ   سری لنکا  کو دہشت گردی جیسے  گندے عزائم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دارالحکومت کولمبو اور تین شہروں میں عیسائیوں کے مقدس تہوار ایسٹر  کے موقع پر تین گرجا گھروں اور 4 ہوٹلوں پر 8 حملوں میں  359 افراد  ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

انقرہ یلدرم بیاضید  یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم  کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔۔۔

سری لنکا میں خانہ جنگی

مذکورہ حملوں کی بنا پر سری لنکن عوام  فطری طور پر وسیع پیمانے کی غیر یقینی اورکرب سے دو چار ہے۔ لہذا اب   یہ ان  سے اظہارِ یکجہتی کا لمحہ ہے۔ ہلاک شد گان میں غیر ملکیوں  کی تعداد 36 ہے، جن میں ترک اور دیگر مسلم ممالک کے شہریوں سمیت  امریکی، برطانوی، ہندوستانی اور ڈینش  شہری  بھی شامل ہیں۔

حملوں  کے بعد حکومت نے ملک گیر کرفیو نافذ کر دیا  ہے اور سماجی رابطوں کی تمام تر ویب سائٹس   کو صارفین کے لیے بند کر دیا ہے۔

سر ی لنکا تقریباً 22 ملین آبادی کا حامل ایک جزیرہ ملک ہے، نفوس کا 70 فیصد بدہ متوں، 12 فیصد ہندوؤں ، 9 فیصد مسلمانوں اور 6 فیصد کیتھولک طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔

اس ملک میں 1983 تا 2009 بدھ مت سنہا اورتامل ہندوؤں  کے درمیان خانہ جنگی  جاری رہی،  یہ سول جنگ حکومتی قوتوں کے سال 2009 میں ان  گروہوں  کو مکمل طور پر کنٹرول میں لینے کے ساتھ نکتہ پذیر ہوئی۔ سری لنکا میں گاہے بگاہے بدھ متوں کی جانب سے عیسائیوں اور مسلمانوں  پر حملوں کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی قریب میں بدھ متوں نے 26 بار گرجا  گھروں کے خلاف مداخلت کی  ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ انہوں نے سال 2013 میں مختلف حملوں میں 40 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

دنیا بھر سے ردِ عمل

تقریباً ایک ماہ قبل نیو زی لینڈ  میں مساجد پر خونخوار حملوں کو دہشت گرد حملے کہنے سے بھی  گریز کرنے والے  اوراس کے سامنے چپ سادھنے والے  متعدد عالمی سربراہان  نے اب  کی بار ان حملوں کی بلند آواز مذمت کی ہے۔ان کا ردِ عمل توقعات کے مطابق تھا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہر طرح کے حملوں کے سامنے اسی مؤقف کا مظاہرہ کریں گے اور مزید تعاون کا اظہار کریں گے۔

جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نےہمیشہ کی طرح  ان حملوں کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے تمام تر بنی نو انسانوں پر کیے گئے ہیں ، لہذا دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون   نا گزیر ہے۔ ان کا بیان کچھ یوں تھا:"سری لنکا میں منصوبہ بندی کے تحت  ایسٹر کے موقع پر ان مذموم حملوں کی میں شدید مذمت کرتا ہوں، یہ حملے در اصل تمام تر بنی انسانوں پر کیے گیے ہیں۔ ۔ ان سفاک حملوں نے  ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف پر عزم جدوجہد کے تقاضے کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا ہے۔ انسانوں اور عالمی امن کی مشترکہ دشمن  دہشت گردی کے خلاف میں سر ی لنکا کے ساتھ تعاون  کرنے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔"

سری لنکن ٹیرینٹزم

نیو زی لینڈ میں مساجد میں عبادت میں مصروف معصوم مسلمانوں کے قتلِ عام کے تقریباً ایک ماہ بعد سری لنکا میں گرجا گھروں میں عبادت کرنے  والے معصوم انسانوں کا قتل توجہ طلب ہے۔ نیو زی لینڈ قتل عام کے بارے میں اس سے قبل تحریر کردہ کالم میں  ہم نے سفید فام انسانوں کی بالا دستی کے نام پر کیے گئے اور اس کا   مینی فیسٹو  کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے اعلان کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو مدِ نظر رکھتے  ہوئے اسے ٹیرنٹزم کی اصطلاح سے منسوب کیا تھا۔ کیونکہ اگر ہم  مملکتی نسل پرستی کو فاشزم، قومی نسل پرستی کو نازی ازم، مذہبی نسل پرستی کو سیونزم  سے منسوب کرتے ہیں تو پھر سفید فام نسل پرستی کو کسی  اصطلاح کی ضرورت تھی۔

سر ی لنکا  میں یہ مذموم حملے چاہےجس کسی کے بھی نام پر کیوں نہ کیے گئےہوں نیو زی لینڈ حملوں کے مرتکب ٹیرنٹ کی سوچ سے ہٹ کر دکھائی نہیں دیتے۔ہم ان حملوں کی سخت ترین طریقے سے مذمت کرنی چاہیے اورحملوں کے پیچھے کار فرما ہونے والوں کو کڑی ترین  سزا دی جانی چاہیے۔

انصاف کی اپیل

موجودہ دور میں  لوگ اسلام، عیسائیت ، صیہونیت، بد ھ ازم، سیکولرزم یا پھر کسی  دوسرے مذہب اور نظریات کے نام پر دہشت گردی  کو اپنا رہے ہیں۔ بلا  شبہہ  دہشت گردی کا کسی بھی شکل میں جواز اور بہانہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ نا انصافی کے جذبات/احساسات   میں اضافے کی حد تک دہشت گردی کی راہ کو اپنائے جانے پر توجہ دینی  ہو گی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چاہے مکمل انصاف کا ماحول قائم بھی ہو تو بھی بعض لوگ ایسی  حرکتوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔  تا ہم دہشت  گردی کو کم سے کم سطح تک کرنے والا عنصر زیادہ سے زیادہ انصاف کی فراہمی  پر مبنی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اولین طور پر انسانوں کے انتہا پسند بننے  کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والا  انصاف  کا ماحول قائم کیا جائے۔ اولیور رائے کے الفاظ  کہ  "اسلام انتہا پسند نہیں بن رہا، انتہا پسندی اسلام کو آلہ کار بنا رہی ہے"  دہشت گرد حملوں کے اسباب    کی تشریح کرتے ہیں۔ لوگ جوں جوں انتہاپسندی کو اپنا رہے ہیں یہ یقین  اور ایمان ہونے والے مذاہب اور نظریات  کے ذریعے  دہشت گردی کو جائز قرار دینے کی جستجو میں ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر انصاف  کی  اپیلوں اور اس کی جستجو  کے ذریعے انتہاپسندی  کی جڑوں کو کاٹنا ہو گا۔ ان کوششوں کے ذریعے   ریڈیکل عیسائیت، اسلامیت، بدھ ازم اور یہودی ازم  کے ماحول کی نفی کی جانی چاہیے۔

اگر عالمی سطح پر ہم انصاف کا ماحول قائم کرنے  کے بجائے محض اپنی قوم و وطن کے لیے انصاف  کے متلاشی ہوں گے تو ہمیں خدشہ ہے کہ یہ دنیا مزید عدم تحفظ کا شکار بنے گی۔ کیونکہ خبر رسانی اور سائنس و  ٹیکنالوجی کے اس دور میں عدم انصاف، مظالم کا ماحول ناسور کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے  اور اس کے خلاف اقدامات اٹھانا  انتہائی کٹھن بن جاتا ہے۔

11 ستمبر  کو امریکہ میں، داعش کے حملوں کی بنا پر پیرس، لندن اور انقرہ میں، ٹیرنٹ  کے مساجد پر حملوں کی باعث نیو زی لینڈ میں اور حال ہی میں گرجا گھروں پر حملوں کی بنا پر  سری لنکا میں   ہم تمام انسانوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ہم چاہے کسی بھی ملک میں کیوں نہ رہائش پذیر ہوں ، ان حملوں کے  سامنے ہماری زندگیاں  کہیں زیادہ عدم تحفظ  سے دو چار ہو رہی ہیں۔ اس بنا پر ایک طرف قیام انصاف  کی کوششوں میں  تیزی لانے کے وقت  دوسری جانب چا ہے جس کسی کے نام پر بھی کیوں  نہ کیا جائے  ہمیں انسان ہونے کے ناطے  بلا کسی تفریق کے دہشت گردی  کے خلاف مشترکہ مؤقف کامظاہرہ کرنا چاہیے۔ بعض دہشت گرد حملوں کو نظرِ اندازکرنا  اوراس پر پردہ ڈالنا ہماری زندگیوں کو مزید خطرے  میں ڈالنے سے ہٹ کر کوئی دوسرا مفہوم نہیں رکھتا۔



متعللقہ خبریں