تجزیہ 16 (کیا نیٹو کا کوَئی نعم البدل نہیں)

نیٹو اور ترکی کے ایک دوسرے کے لیے کردار پر پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1185217
تجزیہ 16 (کیا نیٹو کا کوَئی نعم البدل نہیں)

حالیہ ایام میں امریکہ سے  سامنے آنے والے بعض  بیانات پر  ایس۔400، شام اور امریکہ   کے دہشت گرد تنظیموں سے تعاون جیسے  معاملات کے خلاف  ترکی کی کڑی نکتہ چینی  نیٹو میں اس کے وجود پر سوالیہ نشانات  پیدا ہونے کا موجب بن رہی ہے۔ امریکی نائب صدر پینس نے اس حوالے سے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ "ترکی کو اب فیصلہ کرنا ہو گا آیا کہ یہ   تاریخ کے کامیاب ترین فوجی میثاق میں ایک اہم شراکت دار کی حیثیت سے رہنا چاہتا ہے یا  پھر ہمارے اتحاد کو نقصان پہنچانے والے لا پرواہی پرمبنی فیصلوں کے ساتھ اس تعاون کی سلامتی کو خطرات سے دو چار کرنا چاہتا ہے؟۔"  اس بیان کے جواب میں ترک نائب صدر کا کہنا ہے کہ"امریکہ کو اب فیصلہ کرنا ہو گا، آیا کہ یہ ترکی کے دوست کے طور پر رہنا چاہتا ہے یا پھر دہشت گردوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہوئے نیٹو کے اتحادی ملک کو اس کے دشمنوں کے سامنے کمزور بناتے ہوئے ہماری دوستی کو خطرے  میں ڈالنا چاہتا ہے؟"

انقرہ  یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے  شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا اس موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔۔۔

اولین  طور پر ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ ترکی کی نیٹو رکنیت کے حوالے سے نکتہ چینی  ،نیٹو کے حکام یا پھر دیگر ارکان کی جانب سے نہیں  بلکہ صرف امریکہ کی جانب سے زیرِ لب لائی گئی  ہے۔

نیٹو  کا ترکی کے لیے کردار اور اس  کے اخراجات

یورپ  کے فاشسٹ ممالک کو دوسری عالمی جنگ میں حزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس جنگ میں جمہوری ممالک کو فتح  حاصل ہوئی۔ جنگ کے بعد پوری دنیا میں جمہوری نظام کو اپنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

دوسری جنگ عظیم  کے بعد قائم کیےجانے والے نیٹو میثاق  جمہوری ممالک کی جانب سے  عمل میں لایا گیا تھا۔ ترکی، روس   کے سن 1945 میں کھلم کھلا اظہار کردہ آبناؤں سے متعلق مطالبات اور اس کی دھمکیوں کے پیشِ نظر مغربی بلاک میں شمولیت کا خواہاں تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سلسلے اور نیٹو  کی ترکی کے لیے شاید اہم  اور قیمتی ترین خدمات ترکی میں  قیام جمہوریت میں اس کا کردار ہے۔ اگر ان برسوں میں بیرونی  خطرات در پیش نہ ہوتے   تو شاید یہ سلسلہ کافی  تاخیری سے وقوع پذیر ہوتا۔ سرد جنگ کے دور میں  روسی دھمکیوں اور خطرات کے خلاف  نیٹو ترکی کے لیے ایک ضمانت  کی حیثیت رکھتا تھا۔

 نیٹو کے ترکی کے لیے  مندرجہ بالا  اہم  کردار  کے ساتھ ساتھ   نقصانات بھی   ہوئے ہیں۔ ترکی  میں سن 1960  کی فوجی بغاوت کے بعد اپنے پاؤں جمانے والی سرپرست  انتظامیہ  کی نیٹو اور خاصکر امریکہ سے خود مختاری کی  بات کرنا ناممکن ہے۔ اٹلی میں نیٹو سے  روابط ہونے کا انکشاف ہونے والی گلادیو قسم کی تنظیمیں  نیٹو کے دیگر رکن ممالک بھی  ان کا وجود پائے جانے  کی  ایک وسیع سوچ کا  موجب بنی ہیں۔ ترکی میں 1980 کے مارشل لاء   کو اس دور کے امریکی صدر کو بھیجے جانے والے ایک پیغام"ہمارے  آدمیوں  کا مشن مکمل "  کی ماہیت سے  جانا جاتا ہے۔ حال ہی میں دہشت گرد تنظیم فیتو کی ترکی میں بغاوت کو بعض حلقے امریکہ سے   جوڑتے ہیں۔

ترکی  کی نیٹو میں خدمات

اپنے قیام سے شروع ہوتے ہوئے نیٹو کی چھت تلے  ہونے والی متعدد جنگوں یا پھر مداخلت میں ترک  فوجیں  حصہ  لے چکی ہیں۔ کئی ترک  فوجیوں کے جام ِ شہادت نوش کرنے والی  کوریا جنگ   سے  کون آگاہ نہیں ہے۔ میرے پھوپھا  نے بھی کوریا جنگ میں غازی بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ نیٹو کی ہی سرپرستی میں افغانستان  میں فرائض  ادا کرنے  کے دوران ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والے میجر شکرو  بغداد لی میرے ایک قریبی دوست تھے۔  میں ان تحریروں کے توسط ان دونوں  کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرتا ہوں اور ان  کی مغفرت کا دعا گو ہوں۔

تا ہم  ترکی  کی نیٹو میں اصل خدمات مسلم ممالک میں کیے جانے والے آپریشنز کی مشروطیت ہے۔  نیٹو کے بھاری حملے ہونے والے بعض اسلامی مملکتوں میں نیٹو کے وجود کو قابض فوج یا پھر  نئے صلیبی حملوں کی  نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔  بلا ترکی کے نیٹو کو اس قسم کی تنقید اور رد عمل کا کہیں زیادہ سامنا کرنا پڑے گا۔

کیا نیٹو کا کوئی نعم البدل نہیں ؟ یا پھر بلا ترکی کے نیٹو؟

بیسیویں صدی کے اوائل  میں دنیا کی ممتاز مملکتوں کا جائزہ لینے سے برطانیہ ، فرانس، جرمنی، امریکہ، روس اوردولت ِ عثمانیہ  کے پیش پیش ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔اگر  اکیسویں صدی کے اوائل میں  عالمی پالیسیوں  میں مؤثر ممالک کا جائزہ لینے سے  انہی مملکتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔  ان مملکتوں میں دولتِ عثمانیہ کی جگہ  ترکی اور  چین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

ترکی ۔ تاریخی لحاظ سے  ایک اہم ادا کار اور لیڈر ممالک میں سے ایک ہے۔ آج  اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں سر انجام نہ دیا جانا اس خصوصیت کوختم نہیں کرتا۔ ترکی، نیٹو کا   واحد مسلمان   رکن  ہے۔ ترکی کو اسپین کے ہمراہ بین الا تہذیبی اتحاد  کی شریک صدارت میں مدعو کیا جانا اور  اس عہدے کو سنبھالنا  اس کے  تاریخی ورثے کا ایک نتیجہ ہے۔

اس بنا پر  ترکی نیٹو کے اندر  ایک عام مغربی ملک کی طرح برتاؤ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسا دِکھ سکتا ہے۔  اس کی نیٹو میں خدمات اور تعاون  کا یونان اور اٹلی وغیرہ کی طرح  کے ممالک سے موازنہ ہی نہیں۔ ایک معمولی مغربی ملک کی نظر سے دیکھا جانے والا ترکی، نیٹو   کو بھی عالمی امن کے قیام میں  کافی زیادہ خدمات ادا نہیں کرسکتا۔ تاریخی  گہرائی، اس کی استعداد اور عالمی امن میں فراہم کردہ  خدمات کی بنا پر ترکی کو نیٹو، روس، مغرب، مشرق ، شمال اور جنوب کے ساتھ  ہر پہلو سے تعلقات قائم کرنے چاہییں۔ ترکی کے لیے یہ تعلقات ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہیں۔

نیٹو  کے ترکی کے لیے   لازم و ملزوم ہونے کا دفاع کرنے والے روس اور علاقائی توازن کے اعتبار سے نیٹو کی اہم خدمات پر  زور دے رہے ہیں۔  بلا نیٹو کے   ترکی کے ماضی  کےروسی خطرات  سے  کہیں زیادہ مشکلات سے دو چار ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ بلا شبہہ یہ  باتیں درست ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے روسی خطرات  کے خلاف نیٹو کے ترکی سے تعاون  کو محض ترکی کے تقاضے سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نیٹو نے ترکی کی ضرورت سے ہٹ کر روس کے اثرِ رسوخ میں  اضافے کے اس کے لیے خطرہ تشکیل دینے کی سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترکی سے تعاون  کیا تھا۔ یعنی  اگر ترکی نیٹو کا رکن نہ  ہوتا تو بھی  نیٹو  کسی خاص حد تک اس تعاون کو فراہم کرنے پر مجبور تھا۔ مثال کے طور پر آج ہندوستان نیٹو  کا رکن نہیں تا ہم عوامی جمہوریہ چین کے اثرِ رسوخ  کے پھیلاؤ کے خلاف  یہ  کسی بھی نیٹو ملک کو نہ دی جانے والی مراعات اور تعاون   کی سطح کی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ مختصراً عالمی سطح پر  اپنے اثرِ رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے روس، چین یا پھر کسی  دوسرے ملک کا گھیراؤ کرنے  کا متمنی نیٹو ، چاہے اس کا رکن ہو  یا  نہ ہو  اس سے تعاون کرنے کی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔

ترکی کو نیٹو کے اندر اپنے وجود کو قطعی طور پر جاری رکھنا چاہیے۔ تا ہم امریکہ اور نیٹو ، مشرق وسطی میں سرحدوں کو دوبارہ کھینچے جانے  ،  پڑوس میں دہشت گرد ریاست  کے قیام کی خواہش    ہونے کے وقت صرف نیٹو کے رکن ہونے کے ناطے خاموش تماشائی بننے  کی  کسی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے اور نہ  ہی اس طرح  کے ایک ترکی کی سوچ رکھنی چاہیے۔

برازیل، انڈونیشیا، ہندوستان، ملیشیا ، پاکستان اور چین کی  طرح کے عالمی پالیسیوں میں ہر گزرتے دن مزید اہمیت اختیار کرنے والے  ممالک نیٹو کے رکن نہیں ہیں۔  نیٹو کے اندر یا پھر باہر ترکی  ہمیشہ اپنی راہ  کا تعین کر سکنے والا  ایک ملک ہے۔ اس تحریر کو عصمت انونو کے ایک تاریخی قول سے نکتہ پذیر کرتے  ہیں۔ انہوں نے سن 1964 میں  تحریر کردہ جانسن کے خط کا جواب کچھ یوں دیا تھا: نیا دنیا نئے سرے سے قائم   ہو گی اور ترکی اس میں جگہ پائے گا۔ بلا نیٹو کے  ترکی بعض   چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو بھی یہ اپنے سفر پر رواں دواں رہ سکتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ بلا ترکی کے  نیٹو  کو بھی کافی زیادہ  نقصان ہو گا۔



متعللقہ خبریں