پاکستان ڈائری - 11

پاکستان ڈائری میں اس بار ملک کے مایہ ناز صحافی اور اینکر عارف حمید بھٹی کا خصوصی انٹرویو  وہ 22 سال سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اے آر وائی نیوز کے لاہور بیورو کو ہیڈ کرتے ہیں

1161855
پاکستان ڈائری - 11

پاکستان ڈائری - 11

پاکستان ڈائری میں اس بار ملک کے مایہ ناز صحافی اور اینکر عارف حمید بھٹی کا خصوصی انٹرویو  وہ 22 سال سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اے آر وائی نیوز کے لاہور بیورو کو ہیڈ کرتے ہیں ۔اے آر وائی نیوز لاہور کے بیورو چیف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تحقیقاتی صحافت کا بڑا نام ہیں اور سات بجے کا پرائم ٹائم ٹی وی شو رپورٹرز بھی کرتے ہیں ۔ان کی تحقیقاتی خبریں اکثر اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کردیتی ہیں ۔

 ٹی آر ٹی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ وہ لاہور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اسلام پورہ لاہور میں حاصل کی۔گریجویشن کے بعد بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کی اور اکنامکس میں ڈگری حاصل کی ۔بعد ازاں جرنلزم سے وابستہ ہوگیے۔

وہ کہتے ہیں کہ بطور طالب علم میں ایک نارمل سے اسٹوڈنٹ تھا۔سکول اور کالج کی تقاریر میں کبھی کبھار حصہ لیتا تھا۔وہ کہتے ہیں جب میں باہر سے تعلیم مکمل کرکے آیا تو میں بزنس کرتا تھا ۔بعد میں شوق شوق میں جرنلزم شروع کی اب تقریبا 22 سال ہوگئے ہیں کہ میں صحافت کے ساتھ وابستہ ہو ۔

2008 میں الیکٹرانک میڈیا جوائن کیا اس سے پہلے اخبارات کے ساتھ منسلک رہا ۔پرنٹ میں جنگ ،پاکستان، ایکسپریس،  دن ، جناح میں کام کیا۔پھر بیورو چیف دنیا ٹی وی مقرر ہوا اسکے بعد 2011 میں اے آر وائی نیوز بیورو چیف مقرر ہوا ۔

اپنے پرنٹ کے سفر کے حوالے سے انہوں نے کہا مجھے شروع سے تحقیقاتی صحافت کا شوق تھا میری اکثر تحقیقاتی خبروں سے کچھ بڑے ناراض ہوجاتے تھے۔مشرف کے دور میں میری 5 سے 6 خبروں پر ریفرنس بنے۔تحقیقاتی صحافت میں دباو بہت آتا ہے۔عارف حمید بھٹی نے کہا 2011 میں نے ایک سٹوری کی جس کو میرا ادارہ چلا نہیں رہا تھا انکو دباو کا خدشہ تھا۔سٹوری ایک سیاسی شخصیت پر تھی میں بھی ڈٹ گیا کہ اگر سٹوری نہیں چلی تو میں استعفی دے دو گا۔خیر خبر تو نشر ہوگی اسکے بعد میری گاڑی پر دو بار فائرنگ ہوئی۔

میرے سوال پر کہ اس واقعہ کے بعد فیلڈ چھوڑنے کا خیال آیا تھا تو عارف حمید بھٹی نے کہا کہ میں نے اج تک کبھی گن مین نہیں رکھا نا صحافت چھوڑنے کا ارادہ ہے۔ جب میں نے 2011 میں اے آر وائی نیوز جوائن کیا تو اتنا مقابلہ نہیں تھا الیکٹرونک میڈیا میں اے آر وائی نیوز اور جیو بہت دیکھے جاتے تھے۔وہ کہتے ہیں دنیا نیوز میں بہت ایشو تھے کھل کر سٹوری نہیں دے سکتے تھے لیکن اے آر وائی نیوز میں ایسا نہیں ہے اسکا کریڈٹ سلمان اقبال کو جاتا ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خبر کو نہیں روکا۔مسلم لیگ ن کے دور میں کافی مشکل رہی وہ بہت خفا رہتے تھے لیکن مزے کی بات آج کل وہ بھی خفا ہیں تو آج کل عمران خان بھی نالاں ہیں وہ جرنلزم اور پی آر او میں فرق نہیں سمجھتے ۔

 حکومت کوئی بھی ہو عوام کے ساتھ وعدے پورے کریں اور انکو انکے حقوق دیں ۔لاہور بیورو کے حوالے سے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ جرنلزم بغیر کسی خوف اور ایمانداری سے کیا جائے ۔وہ کہتے ہیں رات کو کل کی کوریج اور اسائنمنٹ کے لحاظ سے ڈیوٹی اسائن کردی جاتی ہے۔کون سا ایونٹ لائیو آئے گا کہاں ڈی ایس این جی جائے گی یہ طے کیا جاتا ہے۔نیوز پیکیج بنائے جاتے ہیں اور بریکنگ نیوز کو بھی فالو کرتے ہوئے رپورٹرز کی ڈیوٹی لگتی ہے۔روٹین کے ایونٹ بھی کور ہوتے ہیں میں خود  چیزیں دیکھتا ہو کہ بہتری کیسے آسکتی ہے۔

 میں نے بہت فیملی والا ماحول رکھا ہوا ہے سب آفس میں برابر ہیں ۔وہ کہتے ہیں پنجاب میں بھی جو مختلف اہم بڑے ایونٹ ہوتے ہیں اس کے لئے بھی بعض اوقات ڈی ایس این جی اور یہاں سے رپورٹرز جاتے ہیں ۔باقی کام نامہ نگار کرتے ہیں ۔کراچی سے مسلسل گائیڈ لائن آتی ہیں جس کام آسانی سے چلتا ہے۔

رپورٹرز پروگرام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو شخص فیلڈ کا حصہ ہو اور رپورٹنگ سے وابستہ ہو اس کے لئے پروگرام کرنا مشکل نہیں ہے۔دماغ میں ہی اتنے نوٹس ہوتے ہیں کہ میزبانی آسانی سے ہوجاتی ہے۔تاہم بیورو چیف ہونا مشکل کام ہے۔عارف حمید بھٹی کہتے ہیں کہ بریکنگ نیوز نے صحافت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔اکثر غلط خبریں نشر ہو جاتی ہیں ان کی کریڈبیلٹی نہیں ہوتی ۔پیراشوٹ اینکرز کے لئے پروگرام مشکل ہوتے ہیں لیکن صحافت سے تعلق رکھنے والو کے لئے نہیں ۔تجربے اور کام کے باعث سوال پوچھنے میں آسانی رہتی ہے ۔تاہم خبر دینے سے پہلے اس کو مکمل چیک کریں کہ یہ درست ہے ۔

 عارف حمید بھٹی نے ٹی آر ٹی اردو سروس کو بتایا کہ مجھے طاقتور آدمی کی کرپشن کو ایکسپوز کرکے اچھا لگتا ہے۔وہ کہتے ہیں پریس ریلیز پڑھنا جرنلزم نہیں ہے طاقت ور کی کرپشن سامنے لانا جرنلزم ہے ۔صحافی کا کام ہے اصل چہرے اور کرپشن سامنے لانا۔انہوں نے کہا چھٹی والے دن بھی چھٹی نہیں ہوتی پرسنل لائف ہی نہیں رہی ۔پرنٹ میں تو وقت مل جاتا تھا لیکن ٹی وی 24/7 جاب ہے۔اب توصبح اٹھ کر آفس شام کو پروگرام زندگی بس کام میں مصروف ہے ۔

وہ کہتے ہیں یہ نعرہ آزادی صحافت تک جنگ رہے گی یہ جھوٹ ہے ۔مالکان اصل طاقت ہیں اور ورکرز کا استحصال ہورہا ہے۔صحافیوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے سیلری وقت پر نہیں ملتی۔ن لیگ کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ ہمارے لئے بہت سخت رہا اے آر وائی نیوز کے اشتہارات بند ہوگئے چینل کیبل پر بند ہوجاتا تھا پیمرا کے ذریعے نوٹس آتے تھے لیکن اسکا کریڈٹ سلمان اقبال کو جاتا ہے کہ انہوں خبروں کو رکنے نہیں دیا۔انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ طاقت ور حکومت ہے ہمارا بزنس یا حکومتی اشتہارات بند ہیں ۔ہماری ٹیم پر حملے ہوتے تھے ہماری ڈی ایس این جی پر نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ وہ وقت گزر گیا مجھے کچھ دن پہلے ایک سابق وفاقی وزیر کا فون آیا اور کہا میں معافی کا طالب گار ہو اور کہا پہلے میں سمجھتا تھا کہ آپ مشرف پی پی یا مسلم لیگ ن کے بارے میں سخت بولتے ہیں انہوں نے کہا آپ تو پی ٹی آئی پر بھی تنقید کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں صحافت غیر جانبدار ہوکر کرنی چاہئے ۔ سچ برداشت کرنے کی ہمت پی پی میں زیادہ ہے مسلم لیگ ن میں بہت کم اور پی ٹی آئی میں برداشت ہے ہی نہیں کہ سچ سن سکیں ۔پی ٹی آئی میں صرف عمران خان کی کریڈیبلٹی ہے باقی نوے فیصد ادھر ادھر سے فصلی بٹیرے پکڑلائے ہیں جو ڈلیور نہیں کرپارہے۔رزلٹ انکا زیرو ہے پنجاب میں کام نہیں ہورہا صحت اور تعلیم میں زیرو ترقی ہوئی ہے۔چھ ماہ ہوگئے ہیں اب ڈلیور کرنا چاہیے۔سنا ہے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا مریم نواز کے سوشل میڈیا سے بھی زیادہ خطرناک ہے لیکن میں سوشل میڈیا یوز نہیں کرتا۔

میڈیا بحران کے حوالے سے عارف حمید بھٹی نے کہا کوئی بحران نہیں ہے یہ بے بنیاد باتیں ہیں ماضی کی حکومت نے انکو کو چالیس ارب کا بزنس دیا ان مالکان نے کسی ورکنگ جرنلسٹ کو کوئی بونس دیا ؟ مالکان تو ایک اخبار سے دوسرا اخبار اور پھر اخبار کے ساتھ ٹی وی بھی شروع ہوگئے ۔کون سا بڑا  میڈیا گروپ سے جس نے نقصان کی وجہ سے اپنا کاروبار بند کیا یہاں تو آگے سے آگے بڑھتے رہے۔یہ حکومت کو بلیک میل کرنے کا طریقہ ہے لیکن عمران خان ان سے بلیک میل نہیں ہورہا ۔مالکان کے اثاثے تو دیکھیں ان میں تو کوئی کمی نہیں آئی مجھے یاد ہے کہ جنگ کے بعد نیوز نکلا پھر میگ نکالا پھر اخبار جہاں آیا پھر جیو آیا اگر یہ اتنے نقصان کا بزنس ہے تو ادارے پر ادارے کیسے بن گئے۔دنیا نیوز کو دیکھیں ٹی وی آیا اخبار آئی لوکل ٹی وی آیا ۔ یہ سب بحران ورکرز کو سیلری وقت پر نا دینے کے لئے ہے اور حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے ہے۔اپنے پیسے یہ ملک سے باہر لے گئے ہیں ۔میڈیا نقصان میں نہیں ہے یہ ورکرز کو حقوق نہیں دینا چاہتے۔

 عارف حمید بھٹی نے بتایا کہ مالکان صرف ورکرز کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دینا چاہتے۔وہ کہتے ہیں کہ میں یونین کا دو بار صدر رہا لیکن یہاں یہ بات قابل افسوس ہے صحافی اپنے علاوہ سب کے لئے آواز اٹھاتا ہے ۔صحافی کو اگر چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تو اس کی خبر اخبار میں نہیں چھپے گی ۔جرنلزم کے مستقبل کے حوالے سے انہوں کہا کہ یہ بہتر ہوگا کچھ ایماندار اپنی محنت سے کام کررہے ہو یہ بحران کچھ مالکان نے حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے جھوٹ میں کھڑا کیا ہے۔مجھے ایک ادارے کا نام بتا دیں جس کو بہت بزنس اور ایڈ مل رہے تھے تو اس نے اپنے ورکرز کی تنخواہیں بڑھا دی ہو۔میڈیا نقصان میں نہیں ہے ایک دو ادارے جن کر سیلری نہیں دے رہے تاکہ حکومت کو بلیک میل کیا جائے ۔جب مالکان کے بلیک میلنگ والے بزنس پر کوئی ہاتھ ڈالے تو آزادی صحافت خطرے میں آجاتی ہے لیکن جب ورکرز کا چولہا ٹھنڈا ہوجائے تو انہیں آزادی صحافت یاد نہیں آتی۔

 حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر انہوں نے کہا کہ بھارت سے پاکستان کی خوشی اور ترقی نہیں دیکھی جاتی ۔ہم بھارت سے جنگ نہیں چاہتے لیکن بھارت اپنے ملک کی خرابی کا الزام ہم پر لگا دیتا ہے ۔بھارت یہ بات یاد رکھے کہ یہ 1971 نہیں ہے۔پاکستان کی فوج اور عوام ملک کے دفاع کے لئے تیار ہے۔بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں ۔امن کے لئے کشمیر ایشو کو حل کرنا ہوگا۔

سعودی ولی عہد کے دورے پر انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہماری معیشت تباہ ہوگی تھی اس دورے سے معیشت پر اچھے اثرات پڑیں گے۔صحافت کے طالب علموں کے لئے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ خبر کو زمہ داری کے ساتھ دیں مکمل تحقیق کریں اور کسی طاقت ور سے نا ڈریں ۔صحافت میں بلیک میلنگ کا عنصر نا ہو صرف سچ کو نمایاں کریں ۔میں نے سچ بولنے والے کو ہمیشہ کامیاب دیکھا ہے۔

 



متعللقہ خبریں