حالات کے آئینے میں49

جی ٹوئنٹی اجلاس

1106284
حالات کے آئینے میں49

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ارجنٹائن میں منعقدہ جی۔20 سربراہی اجلاس میں عالمی رہنما ایک جگہ جمع ہوئے اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کئے گئے۔  اجلاس میں   جو موضوعات سرفہرست رہے ان میں امریکہ اور چین کے درمیان جاری اقتصادی جنگ اور استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کئے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے  کے معاملے میں مشتبہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان  کی صورتحال بھی شامل تھی۔

اقتصادیات، سیاست اور معاشرتی تحقیقات  کے وقف seta کے مصنف اور محقق جان آجون کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

استنبول میں سعودی قونصل خانے  میں کئے گئے خاشقجی قتل  کے بعد ترک حکام  کی کامیاب تفتیش اور عالمی رائے عامہ کے دباو کے نتیجے میں سعودی حکام قتل کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ  کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل  میں ملوث افراد پر سعودی عدلیہ کی طرف سے کاروائی شروع کر دی گئی ہے اور اس بات کی تفتیش کی جا رہی ہے کہ قتل کا حکم کس کی طرف سے دیا گیا تھا۔  سعودی فریق کی طرف سے اگرچہ واقعے کو بعض حکام کی غیر ضروری مستعدی  کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود حالات و واقعات  جس طرف اشارہ کر ر ہے ہیں وہ  سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان  ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی آئی اے کا تفتیش   کے بعد خاشقجی قتل کے پیچھے  پرنس محمد بن سلمان  کا ہاتھ ہونے کے نتیجے پر پہنچنا ذرائع ابلاغ میں بھی نکل آیا تھا۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب یہ تمام تفتیشی  عمل جاری تھا، سعودی ولی عہد پرنس نے پہلے عرب ممالک کا دورہ کیا اور بعد ازاں ارجنٹائن میں جی۔20 سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ عالم عرب  کی امارتوں  اور شاہیوں کا دورہ کرنے کے بعد محمد بن سلمان جمہوری ملک تیونس پہنچے ۔اس دورے پر تیونس کے عوام کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا اور   مظاہروں میں پرنس کو خاشقجی قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے والے پلے کارڈ مرکز توجہ بنے۔

دورہ تیونس کے بعد جی۔20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے دوران پرنس سلمان نے ارجنٹائن میں سعودی سفارت خانے میں ٹھہرنے کو ترجیح دی۔ ارجنٹائن  میں ولی عہد پرنس کے خلاف خاشقجی قتل سے متعلق عدلیہ میں   جرم کی شکایت کا   پیش کیا جانا اور عدالت کی طرف سے اس شکایت کو قبول کیا جانا مرکز توجہ بنا۔ جی۔ 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے دوران  متعدد عالمی رہنماوں نے پرنس سلمان سے دُور رہنے  کی کوشش کی۔ پرنس سلمان نے مختصر دو طرفہ مذاکرات کئے اور فرانس کے صدر امانوئیل ماکرون نے کیمروں کے سامنے انہیں سرزنش کی شکل میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف روس کے صدر پوتن نے  پرنس کے ساتھ کافی حد تک مخلصانہ اور گرمجوش پوز دئیے۔

جی۔20 اجلاس کے اختتام کے بعد خاشقجی قتل اور پرنس سلمان کے حوالے سے امریکہ میں اہم پیش رفت ہوئی۔ سی آئی اے نے بعض مخصوص سینٹ اراکین کو خاشقجی قتل کے بارے میں خصوصی بریفنگ دی۔ بند کمرے کی اس بریفنگ کے بعد کیمروں کے سامنے بیان میں سینیٹر کروکر اور سینیٹر گراہم نے کہا کہ پرنس محمد بن سلمان کے خاشقجی قتل  کا ذمہ دار ہونے کے پہلو پر ہمیں کوئی اندیشے لاحق نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں ترک عدلیہ کی طرف سے کئے گئے حالیہ فیصلے کے ساتھ پرنس کے قریب ترین حلقے کے دو افراد کی گرفتاری کا حکم دیا جانا ظاہر کر رہا ہے کہ پرنس کے گرد چیمبر بتدریج تنگ ہو رہا ہے۔

جی۔20 سربراہی اجلاس کا  ایک اور اہم موضوع امریکہ اور چین کے درمیان جاری اقتصادی جنگ تھا۔ امریکہ کی چین کے ساتھ تجارت میں بڑے پیمانے پر درآمدی و برآمدی عدم توازن کا پایا جانا امریکی انتظامیہ کے لئے بے اطمینانی کا سبب بنا اور  صدر ٹرمپ نے ساختیاتی تبدیلیوں  کی بجائے چین کے خلاف تعزیری پابندیوں کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کے صدر کی عائد کردہ تعزیراتی پابندیوں کے جواب میں چین کا بھی امریکی مال پر پابندیاں لگانا دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ کافی حد تک بڑے اعداد وشمار کے ساتھ ترقی کرنے والی چینی اقتصادیات کا امریکہ کی عالمی حیثیت کے لئے خطرہ بننا  ایک اہم پہلو ہے۔ خاص طور پر متعدد امریکی کمپنیوں کا اپنی پیداوار  کو چین کی طرف  لے جانا دونوں ملکوں کے درمیان رقابت  کو مضبوط بنانے کا سبب بنا۔

 



متعللقہ خبریں