ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 33

ترکی ۔ قزاقستان باہمی تعلقات کا کل اور آج

1034920
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 33

امسال    جمہوریہ ترکی اور قزاقستان کے درمیان سفارتی تعلقات  کے قیام کی 26 ویں سالگرہ ہے، ترکی۔قزاقستان تعلقات کے حوالے سے اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا جائزہ۔۔۔۔

قزاقستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کو 26 سالوں کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یا درہے کہ جمہوریہ قزاقستان نے 2 مارچ سن 1992 میں اعلانِ آزادی کیا تھا۔ جس کے  چند منٹ بعد ہی ترکی  اس ملک کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا۔ خود مختاری کے حصول کے بعد قزاقستان اور ترکی کے مابین طے پانے والے بھاری تعداد میں معاہدوں اور پروٹوکولز کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعلقات کے قیام اور تعاون  کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ترکی اور قزاقستان کے بیچ  سیاسی تعلقات کے قیام کے ساتھ ہی بیک وقت قزاقستان ، ترکی کا یوریشیا  کے جغرافیہ میں اہم ترین سیاسی و اقتصادی شراکت داروں میں  سے ایک کی حیثیت حاصل کر گیا۔ ان دونوں ملکوں کے  باہمی تعلقات میں حالیہ ایام  میں  گہما گہمی کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے قیام میں قزاقستان  کی خارجہ پالیسیوں میں مزید فعال  بننے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی  عبوری رکنیت کی طرح کے  فرائض کا بھی   بڑا ہاتھ ہے۔ مرکزی دفتر استنبول میں ہونے والی ترک کونسل  اورمرکزی  دفتر  آذربائیجان میں ہونے والی،  ترکی زبان بولنے والے ممالک کی پارلیمانی اسمبلی   اور ترک سوئے جیسی انجمنیں  سیاسی وثقافتی میدان میں رکن ممالک کے باہمی تعلقات  کو اجتماعی طور پر  تقویت دینے میں سر گرداں ہیں۔ قزاقستان اور ترکی کے  تعلقات  اقتصادی سطح سمیت  ان اداروں کی سرگرمیوں پر بھی محیط ہیں۔ توقع ہے کہ ان کے  تعلقات آئندہ کے ادوار میں تعلیمی شعبے میں بھی مضبوطی حاصل کریں گے۔ خاصکر ترک ۔قزاق احمد  یسیوی یونیورسٹی کا الماتہ اور آستانہ  میں  بھی کیمپس  کھولنا اور یہاں پر ذہین طلباء کو تعلیم کے زیور سے منور کرانا بھی اس ضمن میں بار آور ثابت ہو گا۔

جمہوریہ ترکی میں قازق صدر نور سلطان نظار بایف کو کافی  اہمیت دی جاتی ہے۔ ترکی،  ترک مملکتوں کے ساتھ تعاون  کے قیام میں  صرف کردہ جدوجہد  کی بنا پر  نظار بایف کو ہمیشہ "عالم ترک کی معتبر شخصیت"، "ترکوں کے عالم فاضل رہنما" کے ناموں سے یاد  کرتا ہے۔ انقرہ میں  قزاق لیڈر  کا ایک یادگاری مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے، جو کہ  ترک عوام  کے دلوں میں ان کی قدر و قیمت کا عکاس ہے۔

ترکی اور قزاقستان کے  عالمی و علاقائی مسائل سے متعلق اہداف مشترکہ ہیں، بین الاقوامی اداروں کے  اندر  ان کی قربت بھی یہی  ماہیت رکھتی ہے۔ دونوں مملکتوں کے بیچ حیثیت  کا تعین نظار بایف کے 2009 میں دورہ ترکی کے دوران دستخط کیے جانے والے حکمتِ عملی مشترکہ  معاہدے  کی بدولت ہوا۔ اس طرح  ان کے باہمی تعلقات  بھائی چارے   کے ساتھ ساتھ 'حکمتِ عملی شراکت داری'  کی سطح  تک پہنچے۔

یوریشیا  جغرافیہ  میں اس کا محل وقوع  قزاقستان کو مشرق اور مغرب کے درمیان ایک قدرتی زمینی پل کی حیثیت دلاتا ہے۔ 26 ویں سالگرہ کے موقع پر اس ملک  میں فی کس آمدنی 700 سے 14000 ہزار ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ اس کی سرزمین پر 1225 قسم کی  معدنیات اور 493  معدنی کانیں موجود ہیں ، یہ ملک  قدرتی گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا کے  پہلے 12 ممالک میں شامل ہے تو تیل کے ذخائر کے  لحاظ سے اس کا تیرواں نمبر ہے۔

ترکی اور قزاقستان  کے درمیان  فوجی و دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبوں  میں مضبوط سطح کا تعاون قائم ہے۔ ترکی ، قزاق مسلح افواج کے نان  کمیشنڈ فوجیوں کی تربیت  کے معاملے میں وسیع پیمانے کی امداد  و تعاون فراہم کر رہا ہے۔ دفاعی  صنعت  کے شعبے میں سرگرم ترک  فرمیں قزاقستان کی دفاعی صنعت  کے لیے کارخانے قائم کررہی ہیں۔  چند برس پیشتر "قزاقستان۔ اسیل سان" فیکڑی کا قیام  عسکری  شعبے میں  اٹھایا گیا ایک اہم قدم ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان چند ملین ڈالر کے ساتھ داغ بیل ڈالے جانے والے تجارتی تعلقات کا حجم آج 4 ارب ڈالر کی سطح پر ہے،  جو کہ ابھی بھی مطلوبہ  سطح پر    نہیں ۔  دس ارب ڈالر کے دائرہ کو پار کرنا دونوں ملکوں کا پہلا ہدف ہے۔ ان اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قزاقستان اور ترکی کے   بیچ لاجسٹک  لحاظ سے براہ ِ راست  راستے   کی عدم موجودگی ہے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی خاطر منصوبہ بندی کردہ متبادل راستوں اورنظریات کو عملی جامہ پہنائے  جانے  سے باہمی تعلقات مزید پروان چڑھیں گے۔

نتیجتاً  ترکی اور قزاقستان دو  مختلف مملکتیں لیکن  ایک ہی ملت ہیں۔ اس موضوع پر  رجب طیب ایردوان اور نور سلطان بایف دونوں مملکتوں اور عالمی ترک کے لیے  کسی نعمت کے مترادف ہیں۔ ان دونوں  رہنماؤں کے  عوام الناس  سے تعلق  رکھنا اور زندگی کے تلخ تجربات سے گزرنا  ترک برادری  کی ضروریات اور توقعات کی صحیح طریقے سے تشریح کرنے اور مؤثر حل  تلاش کرنے  میں  ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔

ترکی اور قزاقستان کے درمیان دوستی  کی طاقت  مشترکہ ماضی و ثقافتی روابط میں پوشیدہ  ہے۔ 26 برس کا عرصہ، ہزار ہا سالہ ترک ماضی  کو بالائے  طاق  رکھنے سے   پلک جھپکنے کے دورانیہ کے مترادف ہے۔ تا ہم ، دونوں  طرفین نے اس قلیل مدت میں عظیم سطح کی کامیابیوں پر اپنی مہر ثبت کی ہے۔ دو طرفہ مفادات و احترام کی بنیاد پر  ان کے باہمی تعلقات آئندہ کے ایام میں مزید  تقویت  حاصل کریں گے۔



متعللقہ خبریں