حالات کے آئینے میں ۔ 25

حالات کے آئینے میں ۔ 25

999392
حالات کے آئینے میں ۔ 25

پروگرام "حالات کے آئینے میں" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ترکی میں انتخابات کے نتائج ترکی کے علاقائی اور  گلوبل کردار کو مضبوط بنائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ترکی کی اہمیت اور اور اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کریں گے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب علاقے میں نئے  نقشے کھینچے جا رہے ہیں ترکی نئے نظام  کو اختیار کرنے کے عمل کو زیادہ طول نہیں دے سکتا تھا۔ کیونکہ ترکی کا معمولی سے سیاسی، فوجی  یا اقتصادی  ضعف کا مظاہرہ کرنا امریکہ کو  اور جغرافیائی تبدیلی کا ہدف رکھنے والی طاقتوں  کو تاریخی موقع فراہم کر دیتا۔   انتخابات کے بعد ترکی سے مذاکراتی میز پر اور فیلڈ میں زیادہ مضبوط اور زیادہ فعال  خارجہ پالیسی پر عمل  پیرا ہونے کی توقع کی  جا رہی ہے۔

سیاست، اقتصادیات اور معاشرتی تحقیقات  کے وقف  کے مصنف اور محقق جان آجُون  کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

جب تک عراق اور شام کے سیاسی توازنوں میں استحکام پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک ترکی کا خاص طور پر اپنی جنوبی سرحد کے لئے بھاری خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ترکی کی  جغرافیائی  صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ترکی کو مغربی ممالک کی طرح انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لئے 6 ماہ کا عرصہ خرچ کرنے کی سہولت میسر نہیں ہے۔ مشرق وسطی کا جغرافیہ کہ جو سیاسی عدم استحکام کا بھاری بدل چکا رہا ہے  یہاں فعال اور موئثر خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا اشد ضروری ہے۔ 24 جون کے انتخابات کے بعد کہ جب  ملک میں نئے  نظام کا آغاز ہو جائے گا ترکی کی علاقائی پالیسیوں کے زیادہ موئثر ہونے کی  توقع کی جا رہی ہے۔ آئندہ سالوں میں   عراق اور خاص طور پر شام کے مستقبل کے شکل اختیار کرنے  کی توقع کی جا رہی ہے  جس کی وجہ سے ترکی قبل از وقت  انتخابات  کروا کے علاقے میں نئے نقشے کھینچے جانے اور  معاملات کو شکل دئیے جانے  کے راستے میں رکاوٹ بن سکے گا۔

شام میں امریکہ کے PKK کی شامی شاخ دہشت گرد تنظیم YPG  کے لئے طویل المدت سرمایہ کاری کے  منصوبے ، روس اور ایران کے اسد انتظامیہ کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے اہداف  اور اسرائیل کے علاقے  کے لئے نقطہ نظر اور روّیے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترکی کو اپنے ملّی مفادات کے تحفظ کو پیش نظر رکھ کر اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایسے حالات میں کہ جب آستانہ مذاکراتی مرحلے کے ساتھ روس، ایران اور ترکی  شام  میں  جھڑپوں کو ختم کرنے اور سیاسی حل کے لئے زمین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں امریکہ  وائے پی جی کے ساتھ تعاون کر کے مختلف مقاصد کے پیچھے ہے۔ پینٹاگون سال 2018 کے اواخر میں بذات خود امریکہ سے تنخواہیں وصول کرنے والے  وائے پی جی کے 65 ہزار دہشت گردوں کو تربیت دینے    کا پروگرام رکھتا ہے اور اس پروگرام کے ساتھ شام کی زمینی سالمیت اور ترکی کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ تشکیل دے رہا ہے۔ اس کے مقابل امریکہ اور ترکی کے درمیان منبچ روڈ میپ پر اتفاق صرف منبچ کے لئے ہی نہیں بلکہ  اس کے ساتھ ساتھ YPG  کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں کے لئے  بھی مثال بن سکتا ہے۔

شام سے داعش اور YPG خارج  دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بڑے پیمانے پر خاتمے نے بین الاقوامی کرداروں کو  اس پہلو کی طرف مائل کیا کہ جنگ کے بعد کا نظام  کیسے قائم کیا جائے گا۔ ایک قوی احتمال کے مطابق یہ مرحلہ چند سال تک جاری رہے گا اور اس کے بعد شام کی اور علاقے کی قسمت کا تعین ہو گا۔ شام کی ترکی کے ساتھ دیگر ہمسائیوں کے مقابلے میں طویل ترین سرحد ہونے کی وجہ سے ترکی کا اس عمل میں داخل ہونا لازمی ہے۔

دوسری طرف عراق میں دہشت گرد تنظیم  PKK  اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور ترکی کے لئے براہ راست خطرہ تشکیل دے رہی ہے۔ اس وقت ترکی عراق کی سرحدوں میں PKK کے خلاف فوجی آپریشنوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ عراق میں متعین ترک مسلح افواج نے  "پُرعزم آپریشن" کے دائرہ کار میں ملک کے اندر PKK کی گزرگاہوں کو صاف کیا ہے اور قدم بہ قدم دہشت گرد تنظیم کے گڑھ یعنی قندیل کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔

زمینی آپریشن کے ساتھ فضاء سے بمباری کے تعاون کے ساتھ ساتھ ڈرون  طیاروں اور مسلح ڈرون طیاوں کے ساتھ بھی آپریشن کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔

عراق میں  انتخابات کے بعد ترکی عراقی حکومت کے ساتھ مل کر عراق میں PKK کے وجود کے خاتمے کا ہدف رکھتا ہے۔ ایک طرف قندیل کے پہاڑوں کو اور دوسری طرف سنجار کے پہاڑوں کو PKK کی طرف سے ایک بیس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد ترکی عراق کی مرکزی حکومت  اور شمالی عراقی علاقائی انتظامیہ کے ساتھ متوقع مذاکرات کے حوالے سے PKK کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

عمومی معنوں میں ترکی کے نظام میں  پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں منتقلی کا عمل ترکی کی بیوروکریسی  اور حکومت کو کمزور کر کے اس کی رفتار کو سست کر رہا تھا۔ تاہم منتقلی کے عمل کی تیزی سے تکمیل  ہونے سے ترکی زیادہ موئثر ، زیادہ سبک اور زیادہ مستحکم پالیسیاں تیار کر سکے گا اور ان کا اطلاق کر سکے گا۔ خاص طور پر خارجہ پالیسی  کے حوالے سے ترکی  کے اندر نظام کی تبدیلی کے عمل کا مکمل ہونا  ترکی   کے لئے آسانی پیدا کرے گا۔

 



متعللقہ خبریں