عالمی نقطہ نظر 24

انتخابی مہم کے دوران عدم مفاہمت کی عدم موجودگی "ایک مثبت قدم

991080
عالمی نقطہ نظر 24

 

Küresel Perspektif  / 24

?SEÇİM SÜRECİ ARTIK NEDEN KUTUPLAŞTIRICI DEĞİL

 

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

ترکی میں24جون کو صدارتی  و پارلیمانی انتخابات ہونے والےہیں جس کےلیے امیدوار  بڑھ چڑھ کر عوام سے روبرو  ہو رہے ہیں۔  ترک تاریخ کے حوالے سے  یہ پہلے صدارتی انتخابات ہونگے  جس کی انتخابی مہم کے دوران ماضی کے مقابلے میں    اخلاقی اسلوب  اور تند و تیز بیانات  سے گریز کیا جا رہا ہے۔

 ماضی کے انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو 20 فیصد ووٹ کسی بھی  سیاسی جماعت کو   صاحب اقتدار بنانے کےلیے  کافی ہوتے تھے  آق پارٹی  نے   اپنے دور اقتدار میں  اسے مزید مشکل بنا دیا اور اس کی حد 50 جمع ایک فیصد رکھ دی  جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امید واروں کو  اقتدار میں آنے کےلیے  رائے دہندگان کے ہر طبقے  اور اکثریت   کو اعتماد میں لینا  پڑے گا اور یہ ضروری ہوگا کہ   تمام  سیاسی جماعتیں   مفاہمتی  پالیسیوں  کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں ۔

ترکی میں   اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونے کےلیے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں  کے درمیان  انتخابی نظام  کے تحت  مصالحتی طرز عمل  اختیار کرنا  ایک اچھی پیش رفت ہے ۔

 عوامی  تجزیات   کا خیال ہے کہ صدارتی انتخابات  پہلے مرحلے میں نقطہ پذیر ہونگے مگر حزب اختلاف  کی سیاسی جماعتیں دوسرے مرحلے تک اس انتخابی دوڑ کے لے جانےکےلیے ایڑی  چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔   بالفرض اگر ایسا ہوا تو  سیاسی جماعتیں  اپنے  ووٹ بینک کے علاوہ   دیگر جماعتوں  اور جزوی طور پر  اق پارٹی  کے بعض   ووٹوں کو حاصل کرنے کی  کوشش کریں گے۔  اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ دوسرے مرحلے   کی صدارتی دوڑ میں  سیاسی جماعتیں  اپنے رویے میں مزید نرمی پیدا  کرتےہوئے سیاسی گٹھ جوڑ میں لگ جائیں گی ۔

 ماضی میں  صدر کا انتخاب پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں  یا ارکان     کرتے تھے  جس میں  عوامی رائے  کا عمل دخل   کافی محدود  ہوا کرتا تھا جو کہ   جمہوری روایات    اور  آزادی اظہار     پر مبنی سیاسی طرز عمل کے خلاف تھا ۔ نیا صدارتی نظام  اس پرانے اور فرسودہ نظام  کے مقابلے میں  زیادہ موثر ہوگا     /

 ترکی    کے ماضی پر اگر نظر ڈالیں تو  انتخابات کے دوران سیاسی اتفاق قانونی حیثیت نہیں رکھتا تھا جس کے مقابلے میں اب  سیاسی دوڑ میں جمہوری اور ملت اتفاق کے نام سے دو سیاسی  دھڑے وجود میں آچکے ہیں جو کہ اس بات  کا غماز ہے کہ سیاسی دوڑ میں  ان جماعتوں کی شمولیت ماحول کو    ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔ ماضی میں سیاسی اتفاق انتخابات کے بعد ہوتا تھا  مگر اب پہلے  قائم ہوتا ہے ۔

 دیگر جانب  سے اس نئے سیاسی نظام کا فائدہ چھوٹی جماعتوں کو بھی ہوگا جو کہ   کسی حد کے بغیر پارلیمان میں اپنی جگہ  بنا لیں گی   جس کے نتیجے میں پارلیمان میں  سیاسی نمائندگی میں اضافہ  ہوگا  اور کشیدگی کم ہوگی ۔

  انتخابی دوڑ میں  بالخصوص بائیں بازو کی جماعتیں  اب کی بار   تنگ خیالی ۔آزاد خیالی ،سیکولر اور اینٹی سیکولر ،جدت پسندی،اتاترک ازم  جیسے عوامل    پر  بحث  سے بچ رہے ہیں  جو کہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے ۔  یہ بھی ضروری ہو گیاہے کہ سیاسی جماعتوں  کو  اب اپنی فرسودہ پالیسیوں  کے بجائے تعمیری اور مثبت سیاسی  وعدوں کو جگہ دینا  پڑے گی ۔ اقتدار کے حصول کےلیے  اب  گندی  سیاست کے بجائے  عوام کے کثیر حلقے کو  اعتماد میں لیتےہوئے   ان کے مطالبات   پر سنجیدگی سے غور کرنے کا موقع ملے گا ۔

حالیہ انتخابی دوڑ میں ایک دیگر توجہ طلب عنصر  دہشتگرد تنظیموں کی ہمدردی بٹورنے والی سیاسی جماعت ایچ ڈی پی   سے کسی بھی سیاسی  جماعت کا  اتفاق قائم  نہ کرنا  ایک مثبت    طرز عمل ہے ۔

انتخابی دوڑ میں    عوامی اکثریت کی حمایت  کا حصول اب ایک  شہرت  میں اضافے کا سبب بن گیا ہے بالخصوص  حز ب اختلاف   کی سیاسی جماعتیں اب اس کوشش میں ہے کہ   ملک کی پیداواری  صلاحیت بڑھانے کے بجائے      عوامی ضروریات کی فراہمی  کس طرح ممکن بنائی جائے۔

  ترکی کو  اپنی علاقائی صورت حال کے حوالے سے  خطرات    کا سامنا ہے  جس کےلیے ضروری ہے کہ   منافرت  کے بجائے  اتحاد و یک جہتی   اور    عوام کی اکثریت کا احترام     اور ان کے جائز مطالبات  کی  بجا آوری پر مبنی  پالیسیاں  ملکی بقا کے حوالے سے اہم ہونگی ۔

صدارتی نظام   کا نفاذ اس سلسلے میں ایک مثبت  مثال بن چکا ہے ۔

 

یہ  جائزہ  آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے  شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں