حالات کے آئینے میں 52

امریکہ کی عالمی توازن کو بگاڑنے کی پالیسیاں انتہائی تباہ کن ہیں، ایک تجزیہ

874400
حالات کے آئینے میں 52

بنی نو انسانوں  کی جانب سے   لمبے ڈنڈوں  کے آگے لگائے  گئے  نوکدار پتھروں  یعنی برچھیوں کے ساتھ شروع ہونے والی  جنگ کی تیکنیک  اور ٹیکنالوجی    کو فروغ دینے کا عمل آج بھی  سرعت کے ساتھ جاری ہے۔

تلوار اور پھانے کے درمیان کے سائز کی ہونے والی برچھی  کے ذریعے   انسانوں  نے جنگی فنون کے  میدان میں انقلاب برپا کیا تھا۔  کیونکہ  شکار کے وقت  تھوڑے فاصلے کے ہتھیار انسانوں سے کہیں زیادہ طاقتور  وحشی جانوروں کو زیر   کرنے  میں  کچھ زیادہ مدد گار ثابت نہ ہوتے تھے۔

انسان قدیم ترین   مگر   با اثر اس طریقہ کار کو تا حال استعمال کرتا چلا آیا ہے۔  یہ  طریقہ کار بعض نئی چیزوں  کے اضافے کے ساتھ ہمیشہ ہر دور میں اپنی عملی خصوصیت  کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

شروع شروع میں  مضبوط اور پائدار   ڈنڈوں  کے ایک کنارے پر دو کناروں اور ایک نوک کے  تیز دھار ہونے والی دھات کواستعمال کیا جاتا تھا تو  عصر حاضر کے لوگ بھی اسی مقصد کے تحت ان کو بروئے کار لاتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قومی سلامتی  حکمت  عملی کے اعلان   کے روز تک   عمل درآمد کردہ پالیسیاں اوپر بیان کردہ تشریح سے ہم آہنگ  تھیں۔

ٹرمپ  انتظامیہ  ایشیا ۔ پیسیفک  سمیت  دنیا کے دوسرے کونے پر واقع شمالی کوریا تک     چھوئے جانے والے  ہر مقام کو آگ کے کسی گولے  میں بدل رہی ہے۔ برچھی کی تشریح   کسی سیاستدان کے لیے اس حد تک کبھی ہم آہنگ نہ ہو سکتی تھی۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران متنازعہ علاقوں میں تنظیموں اور اس کے بازوں سے نہیں بلکہ براہ راست حکومتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے  اور دنیا میں جاری افراتفری کی روک تھام    میں معاون ثابت ہونے کا عندیہ دیا تھا۔   انہوں نے  بار ہا  یہ بھی کہا تھا کہ   بد امنی کے ماحول کو پیدا کرنے والے سابق امریکی صدر باراک اوباما  ہیں۔ یہاں تک کے  ٹرمپ نے داعش دہشت گرد تنظیم کو اوباما انتظامیہ کی جانب سے  قائم کیے جانے کا دعوی کیا تھا۔

امریکی صدر کو برچھی کی مثال  یعنی چھونے والی ہر چیز  کے خون میں رنگنے  کو ہم  صحافی اور سیاسی تجزیہ کار  انفرادی  کاروائی کی نگاہ سے  دیکھتے تھے۔  یعنی  اس جیسے عوامل کے ٹرمپ کی شخصی پالیسیاں ہونے  اور امریکی   حکومت  سے اس کا تعلق نہ ہونے کے تبصرے کیا کرتے تھے۔

 لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متحدہ امریکہ کے صدر ٹرمپ کی گزشتہ دنوں  جاری کردہ قومی سلامتی حکمت عملی میں ،ٹرمپ انتظامیہ اور متحدہ امریکہ  کے  ایک برچھی  کی طرح پوری دنیا کو متاثر کرنے کا  برملا اظہار ہوا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ کی قومی سلامتی حکمت ِ عملی  کا  سب سے زیادہ  توجہ طلب  جملہ یہ  تھا۔

"نیشنل سیکورٹی سٹریٹیجی  پوری کابینہ کی منظوری   سے وضع کی گئی ہے"   یعنی امریکی حکومت اور ریاستی  عقل  نے یکجا ہوتے ہوئے   دنیا  میں بد نظمی اور بد امنی کے  خاتمے کے لیے بعض اقدامات اٹھانے کا  فیصلہ کیا ہے۔

اس لحاظ سے   جائزہ پیش کردہ  اس نتیجے تک باآسانی رسائی کی جا سکتی ہے۔ امریکی  قومی سلامتی  کا معاملہ اولین طور پر   ملک کے لیے ہے۔ یہ مفاہمت اور نظریہ امریکہ کو ایک کو  سخت دیوار سے ٹکرائے  گا۔

کیونکہ کسی بھی ملک میں   اس طر یقے سے حکومت و مملکت  کی شراکت داری کے ذریعے  واحد نہ طور پر   محاذ  آرائی کا نہیں  سوچا گیا تھا۔  نازی جرمنی میں  بھی   کئی ایک  سیاستدانوں اور  علماء نے آڈولف ہٹلر کی مخالفت کی تھی۔ حتی  عصر حاضر میں  اسی سے مشابہہ کسی حکومت کی جانب   پیش قدمی کرنے والے آسٹریا میں  بھی مملکت اور بیوروکریسی انتہائی  دائیں بازو کی اتحادی  پالیسیوں کو مسترد کرتی ہے۔

مثال کے طور پر آسٹریا  حکومتی عقل یعنی وزیر اعظم اور نازی  نظریات کے حامی ہونے کا مورد الزام ٹہرائے جانے والے سباستیان  کُرز  نے بھی  یورپی یونین کی پالیسیوں کے حوالے سے  کئی ایک  لچکدار جملے شامل کرتے ہوئے مغربی دنیا  سے کنارہ  کشی نہ کرنے کا پیغام دیا ہے۔ ہم آسٹروی  مملکتی عقل  یعنی بیوروکریسی   کے کُرز کی انتہائی  قوم  پرست پالیسیوں   میں بعض نرمیاں  لانے  کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

البتہ امریکہ میں اس قسم کی بیوروکریسی کا وجود اب دیکھنے کو نہیں مل رہا۔  سی آئی اے سے لیکر  امریکی وزارت انصاف تک، وزارت دفاع سے لیکر ناسا تک ، کانگرس سے  امریکی  مملکتی  عقل یعنی بیوروکریسی  ٹرمپ کی  ان قومی سلامتی پالیسیوں  کی حمایت کررہی ہے۔ حتی بعض سرکاری اداروں کے  ٹرمپ کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے   انتہا پسندی  کا مظاہرہ کرنے کا  پوری دنیا مشاہدہ کر  رہی  ہے۔

ایسا ہے کہ ابتک  امریکہ میں کانگرس، سینٹ، بیوروکریٹس اور وائٹ ہاؤس نے  ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ توازن قائم کرنے  اور کرہ ارض کے ترازو کو نہ بگاڑنے والی پالیسیوں  کو وضع کیے جانے کی کوشش کی تھی۔

اس کا ہر ادارہ    دوسروں کی انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں  کی چھانٹی کرتے ہوئے  اسے فروغ دیتا تھا اور  عالمی امن کے قیام میں  خدمات فراہم کرنے  میں سرگرداں  رہتا تھا۔

آج امریکہ کے بنیادی عناصر یعنی حکومت، کانگرس، سینٹ، بیوروکریسی اور وائٹ ہاؤس  دنیا بھر میں   بے چینی پیدا کرنے والی پالیسیوں  پر عمل کرنے کے درپے دکھائی دے  رہے ہیں۔

امریکی  قومی سلامتی حکمت عملی  اپنے اندر تباہ کاریوں کو سمائے ہوئے ہے،  اب ہمیں  امریکی انتظامیہ اور اداروں کے آیا کہ کیونکر برچھی کی نوک پر  پالیسیاں مرتب کرنے کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔



متعللقہ خبریں