پاکستان ڈائری 51

ایڈز کے عالمی دن کے حوالے محترمہ جویریہ صدیق کی رپورٹ

872021
پاکستان ڈائری 51

دسمبر میں ایڈز سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے کچھ بڑے ہسپتالوں اور غیر سرکاری تنظیمیں اس حوالے سے سیمنار منعقد کئے جاتے ہیں۔ لیکن عام طور پر پاکستان میں اس بیماری پر بات ہی نہیں کی جاتی جس کے پیچھے بہت غلط مفروضے ہیں ۔ 20 کروڑ عوام کو اس بیماری کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔

ایڈز کے روک تھام کے حوالے سے اینڈ ایسولیشن، اینڈ سٹیگما اور اینڈ ایچ آئی وی ٹرانسمیشن کرنا ضروری ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 36.7 ملین افراد ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں ۔2016 میں 1.0 ملین افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کہ منہ میں چلے گئے ۔1.8 ملین مزید افراد 2016 میں اس بیماری میں مبتلا ہوئے ۔پاکستان کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں ایڈز کے ایک لاکھ 32 ہزار مریض موجود ہیں یہ تعداد اس بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں لوگ علاج میں تاخیر کرتے ہیں اوران کے پاس علاج معالجے کی سہولیات بھی دستیاب بھی نہیں۔لوگوں اور طبی عملے کا عمومی رویہ بھی ایسے مریضوں کے ساتھ نفرت آمیز ہوتا ہے تو بہت سے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے۔
ایچ آئی وی ایڈز ایک ایسا خطرناک وائرس ہے جو انسان میں قوت مدافعت ختم کردیتا اور ہر طرح کی بیماریاں انسان پر حملہ آور ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔اس کی علامتیں ظاہر ہونے میں دو سے پندرہ سال کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ ابتدائی علامات جو ظاہر ہوتی ہیں ان میں مختلف انفکیشنز کا ہونا مسلسل بخار،کھانسی،اسہال،وزن میں کمی،گلے میں سوزش،نزلہ زکام اور جوڑوں میں درد شامل ہے۔اگر یہ علامتیں ہوں تو فوری طور پر ہسپتال کا رخ کیا جائے اور ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ٹیسٹ کروائے جائیں۔

 

 

 

یاد رہے ایڈز چھوت کی بیماری نہیں ہے یہ مریض کو ہاتھ لگانے ،اسکے پاس بیٹھنے یا اسکے کے کام کرنے سے نہیں ہوتی۔ اس بیماری کی وجوہات میںغیر محفوظ ازدواجی تعلقات ، ملٹیپل پارٹنرز ،ہم جنس پرستی،متاثرہ عورت سے اس کے پیدا ہونے والے بچے میں بھی یہ مرض منتقل ہوجاتاہے۔ایڈز کا خطرہ ان لوگوں کو بھی زیادہ ہے جو ہم جنس پرستی کا شکار ہیں،میل، فی میل اور ٹرانسجینڈر سیکیس ورکرز اور ان کے گاہک ،جیل میں قیدی بھی خطرے کی زد میں ہیں ۔یہاں یہ بات جان لینا بہت ضروری ہے کہ یہ بیماری صرف بے راہ روی سے نہیں پھیلتی بلکہ اس کے پیچھے بہت سے دیگر وجوہات بھی ہیںجیسے استعمال شدہ سرنج کا استعمال،

اس کے علاوہ غیر محفوظ خون لگوانے سے،منشیات کا استعمال کرنے والے،طبی اوزار اگر صاف نا کیے جائیں اورٹیٹوز ناک کان چھدوانے کے اوزار اگر اسٹیریلائز نا ہوں تو یہ بیماری پھیلانے باعث بنتے ہیں۔
اس بیماری سے بچنے کا سب سے بڑا طریقہ احتیاط اور اس مرض کے حوالے سے آگاہی ہے۔اگر آپ سے بیماری کے پھیلنے کی وجوہات سے واقف ہیں تو ان تمام چیزوں اور کاموں سے احتیاط کریں جوکہ اس مرض کے پھیلائو کا باعث ہیں۔اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور بے راہ روی سے پرہیز کریں۔ازدواجی تعلقات میں اپنے شریک حیات تک محدود رہیں اور کنڈومز کا استعمال کریں ۔ہمیشہ نئی سرنج کا استعمال کریں،سڑکوں پر بیٹھے ہوئے دندان سازوں اور ناک کان چھدوانے سے مکمل اجتناب کریں۔اگر کسی کو خون لگوانا ہو تو معیاری بلڈ بینک سے لیں اگر کوئی فرد عطیہ کر رہا ہو تو اس کا ٹیسٹ کروایا جائے کہ وہ ہر طرح کی بیماری سے محفوظ ہے۔پالرز میں قینچی اور مینی، پیڈی کیور کرنے والے اوزار مکمل صاف ہوں۔کسی کا استعمال شدہ بلیڈ استعمال نا کریں۔

 

اس بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد مریض کوسب سے پہلے کونسلنگ کی ضرورت ہے یہ بیماری کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے اس لیے خاندان کی شفقت اور ڈاکٹرز کا ہمدردانہ رویہ مریض میں اس بیماری سے لڑنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔پاکستان کے زیادہ تر اسپتال ماہر نفیسات سے محروم ہیں اس لیے یہ بات لازم ہے کہ رسپسشن پر بھی اور ایڈز جیسے موذی امراض کے شعبے میں ماہر نفسیات بیٹھائے جائیں تاکہ مریضوں کو حوصلہ ملے اور کوئی شخص بھی ان کی تضحیک نا کرے۔اس کے بعد ایڈز کے مریضوں کے علاج کے لیے اب ادویات دستیاب ہیں جوکہ اس بیماری کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت تو نہیں رکھتی لیکن اے آر ٹی  ادویات کی مدد سے ایڈز کو کہیں سال تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔تاہم یہ ادویات بہت مہنگی ہیں اس لیے حکومت کو ان ادویات کو مریضوں کو رعایتی نرخوں پر فراہم کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء جو ایڈز کے تدارک میں استعمال ہوتی ہیں انہیں عام کیا جاہے۔استعمال شدہ سرجن،انجکشن اور بلیڈ کو فوری طور پر تلف کر دیا جائے اور دیگر آلات کو مکمل طور پر جراثیم سے پاک کرکے استعمال کیا جائے۔محکمہ صحت خود اس بات کی نگرانی کرے کہ اسپتالوں،بلڈ بینک اور لیباٹریوں میں صحت و صفائی کے اصولوں کا مکمل خیال کیا جائے۔تب جا کر ہم اس بیماری پر قابو پاسکتے ہیں۔اس کے ساتھ میڈیا حکومت اور سول سوسائٹی آگاہی پھیلائے اور ٹی وی اخبارات سوشل میڈیا اس ضمن میں بہترین کام انجام دےسکتے ہیں ،ایڈز کو پھیلنے سے ہم صرف اس بیماری کے حوالے سے آگاہی عام کرکے کم کرسکتے ہیں ۔

 



متعللقہ خبریں