قدم بہ قدم پاکستان - 42

آئیے! آج آپ کو پنجاب میں موجود تین مقبروں کے بارے میں بتاتے ہیں

831278
قدم بہ قدم پاکستان - 42

السلام علیکم! آئیے! آج آپ کو پنجاب میں موجود تین مقبروں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔

مقبرہ زیب النساء:۔

شہزادی زیب النساءنے لاہور کے موجودہ علاقے نواں کوٹ میں ایک خوبصورت باغ بنوایا تھا۔ باغ کے ساتھ دیدہ زیب اور شاندار عمارتیں بھی تعمیر کروائیں جبکہ مرکزی عمارت اپنے مقبرے کے لئے مخصوص کر لی۔ 1669ءمیں شہزادی زیب النساءکا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق انہیں اس جگہ دفن کیا گیا۔ شہزادی زیب النساءکے مقبرے کا شمار لاہور کی خوبصورت اور پُرشکوہ عمارتوں میں ہوتا تھا۔ خوبصورت گنبد‘ سنگ مرمر سے بنی عمارتیں‘ محرابیں اور مقبرے سے متصل باغات اس کے حسن میں اضافہ کرتے تھے۔ لوگ دور دور سے اس مقبرے کو دیکھنے آتے تھے اور اس کے فن تعمیر کی تعریف کئے بغیر نہ رہتے تھے۔ مقبرہ اور اس سے متصل عمارتیں اور باغات شہزادی زیب النساءکے حسن ذوق کے آئینہ دار تھے۔ رنجیت سنگھ نے مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر خوبصورت عمارتوں کے علاوہ اس کو بھی نقصان پہنچایا اور یہاں سے قیمتی پتھر اکھاڑ لیا گیا۔

 

مقبرہ جنرل الارڈ :۔

لاہور میں موجود ایک اور مقبرہ الارڈ نامی فرانسیسی جرنیل کا ہے۔ جنرل جے ایس موسیو الارڈ اور اس کے ساتھی جرنیل ونتورا نپولین بونا پارٹ کے دور میں برطانیہ سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ نے ان کی خدمات خالصہ فوج کی تربیت کے لئے حاصل کیں۔

رنجیت سنگھ نے 28000 روپے ماہوار ان کی تنخواہ مقرر کی اور تقریباً ایک سو سکھ فوجیوں کی تربیت پر انہیں مامور کیا۔ فرانسیسی جرنیلوں نے ان سکھ فوجیوں کی عمدہ انداز سے تربیت کی۔ انہیں جنگی امور سکھائے اور ان کی بہترین تنظیم نو کی۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد سکھ فوجیوں نے مختلف مواقع پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو رنجیت سنگھ نے پوری فوج ان کی نگرانی میں دے دی۔ 5 اپریل 1827ءکو جنرل الارڈ کی بیٹی انتقال کرگئی۔ اس کی وفات پر جنرل الارڈ کو شدید صدمہ پہنچا۔ جنرل الارڈ نے اپنی بیٹی کا خوبصورت مقبرہ بنوایا جو مشرقی اور فرانسیسی طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ مقبرے اور باغ کے لئے 48 کنال اراضی مختص کی گئی تھی۔ جنرل الارڈ بیٹی کی وفات کے بعد بیمار اور اداس رہنے لگا اور جنوری 1889ءمیں پشاور میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کے جسد خاکی کو لاہور لایا گیا اور فوجی اعزاز کے ساتھ اس کی بیٹی کے مقبرے کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ جنرل الارڈ کے ساتھی جنرل ونتورا کی قبر بھی یہاں ہی ہے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس مقبرے کی دیکھ بھال اور حفاظت کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔

مقبرہ سلطان شہاب الدین غوری :۔

12 مارچ 1206ءکو سلطان شہاب الدین غوری لاہور اور راولپنڈی کے درمیان مشہور جرنیلی سڑک جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے کی نواحی بستی کوٹ دھیمک آئے۔ وہاں وہ عشاءکی نماز ادا کر رہے تھے کہ انہیں شہید کر دیا گیا۔ ان کا شمار خدا ترس اور دین دار حکمرانوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد انہیں اسی جگہ دفن کر دیا گیا۔ لیکن ان کے شایان شان ان کا مقبرہ بنانے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ شاہ ایران نے سلطان شہاب الدین غوری کا مقبرہ بنوانے کی پیشکش کی تھی لیکن اس پر بھی کسی نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

جولائی 1995ءکو پاکستان کے مشہور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہاں آئے تو قبر کی خستہ حالی دیکھ کر انہیں بہت افسوس ہوا اور انہوں نے یہاں سلطان شہاب الدین غوری کے شایان شان ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے دربار حضرت علی ہجویریؒ کا ڈیزائن بنانے والی فرم سے مقبرے کا ڈیزائن تیار کروایا اور آٹھ کنال اراضی خرید کر مقبرے کےلئے وقف کر دی۔ آخرکار 11 ستمبر 1996ءکو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میجر جنرل شیر علی کی کوششوں سے برصغیر کے عظیم فاتح کا عظیم الشان مقبرہ تیار ہوگیا۔

مقبرے کا ڈیزائن گیارھویں صدی عیسوی کے وسطی ایشیائی مسلم طرز تعمیر کے مطابق تیار کیا گیا۔ مقبرہ پچاس فٹ بلند ہے اور اس کے چاروں کونوں پر مینار اور برجیاں بنائی گئی ہیں۔ یہاں آنے والے سیاح قدیم طرز تعمیر کے اس جدید مقبرے کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔

آئندہ ہفتے آپ کو پاکستان کے کسی اور خوبصورت مقام کی سیرکروائیں گے تب تک کے لیے اپنے میزبان محمد شعیب کو اجازت دیجیے۔اللہ حافظ ۔

 



متعللقہ خبریں