حالات کے آئینے میں 25
جب بھی ترکی کا انسداد دہشت گردی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اسوقت دہرے معیار کا مؤقف اپنا لیا جاتا ہے
9 جون کو ضلع باتمان کی تحصیل کوزلک میں دہشت گردوں کے ایک گروپ نے ایک مسروقہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا، بلدیہ میئر ویصی اشک کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی بعد ازاں جنڈارمیری کی چیک پوسٹ کے جوار میں ایک کار بم حملہ کیا گیا۔ میئر اشک اس حملے میں محفوظ رہے ہیں تو ایک دوسری گاڑی پر سوار 22 سالہ میوزک ٹیچر شنائے گولیا ں لگنے سے جان بحق ہو گئی، جبکہ فوجی سونر فاضلی اولو شہید ہو گیا۔
PKK کے تازہ دہشت گرد حملوں کو غیر ملکی پریس میں ایک اہم سطح پر نظر انداز کیا گیا۔ ڈیلی صباح اور ترکی میں انگریزی زبان میں خبریں شائع کرنے والے چند ایک اخبارات کے علاوہ کسی بھی خبر کے ذرائع میں نوجوان دوشیزہ کی المناک ہلاکت میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ کیونکہ یہ واقع PKK کی شام میں شاخ وائے پی جی کے بارے میں مغرب میں پائے جانے والے نظریات اور سوچ سے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔ PKK کو بے قصور ٹہرانے اور ترکی کو انسداد دہشت گردی کے معاملے میں ڈآئیلاگ اور مذاکرات کی اہمیت کے بارے میں وعظ دینے کے لیے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ گنوانے والوں نے مذکورہ حملے کی مذمت یا پھر تعزیت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ مذاکرات اور ڈائیلاگ کا ماحول داعش اور القاعدہ کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں اہم ہے، تاہم مغرب اس چیز میں سستی اور دوہرے معیار کی حامل پالیسیوں کو اپنائے ہوئے ہے ۔
PKK ایک عرصے سے اساتذہ، سیاستدانوں اور غیر محارب دیگر افراد کو ہدف بنانے کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ اس تنظیم نے 1984 سے ابتک ڈیڑہ سو سے زائد اساتذہ کےقتل کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ معلمو ں کے خلاف حملے، مملکتی اختیارات کو نقصانات پہنچانا، کردی بچوں کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھنا اور دیگر استادوں کو مشرقی اور جنوب مشرقی اضلاع میں نوکریاں تلاش کرنے سے باز رکھنا وغیرہ دہشت گردوں کے گندے عزائم میں شامل تھے ۔حتیٰ تنظیم نے بعض وارداتوں میں محض درس و تدریس کرنے والوں کو ہدف بنایا ہے۔ سن 1994 کے ماہ ستمبر میں اسکول کھلنے کے ابتدائی ایام میں 6 سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو تنجیلی کے شہری مرکز میں قتل کرنے کی غرض سے ان کے گھروں سے اغوا کیا گیا تھا اور مقامی عوام کو ان کا قتل کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ اس واقع کے ایک ماہ بعد چار اساتذہ کو ارض روم کے ایک گاوں سے اغوا کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ بلا شبہہ ان المناک واقعات کی خبریں ذرائع ابلاغ میں سامنے آئیں تو بھی یہ کبھی بھی انسانوں کے ذہنوں میں انمٹ نقوش پیدا کرنے کی سطح تک نا پہنچ سکیں، کیونکہ یہ داعش کے خلاف جنگ کرنے والے اچھے، انسان شناس ، حریت پسند PKK کے دہشت گردوں کو بیان کرنے والے دو رخی بیانات سے ہم آہنگ نہ تھیں۔
PKK نے بین الاقوامی قوانین کی رو سے محارب تصور نہ کی جانے والی حفاظتی قوتوں کے خلاف بھاری تعداد میں حملے کیے۔ ان حملوں کے علاوہ PKK نے مئی سن 1993 کو ترکی کے مشرقی علاقے بن گیول۔ ایل آزی شاہراہ پر 33 نہتے فوجی جوانوں کو بڑی بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ نومبر سن 2016 میں قیصری کی فوجی چھاؤنی پر ہونے والے کا ربم حملے میں 13 فوجی جوان ہلاک جبکہ 36 زخمی ہو ئے تھے۔ تنظیم کے آسڑیا اور جرمنی کی طرح کے ملکوں میں اشاعت و نشریات کرنے والے پروپیگنڈا عناصر نے مذکورہ حملوں کو سراہا۔ جب ہم ان معاملات پر یورپی حکام سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر یہ لوگ آزادی اظہار کے پیچھے اپنے آپ کو چھپانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ کب سے آزادی اظہار کو آلہ کار بناتے ہوئے دہشت گرد تنظیم کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے؟ کیا مغربی مملکتیں کسی بھی بہانے کی آڑ میں دہشت گردی کی پذیرائی کے عمل کو جاری رکھیں گی؟
ان کا جواب فطری طور پر 'نہیں 'ہو گا۔ مزید برآں یورپ اور امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد ہونے کی طرح ، حق بجانب طور پر اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے سیکورٹی اقدامات میں تیزی لائیں گے۔ ان تدابیر پر عمل پیرا ہونے کا انہیں حق حاصل ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ان پر الزام تراشی کی جا سکتی ہے۔ تا ہم ، جب بھی ترکی کا انسداد دہشت گردی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اسوقت دہرے معیار کا مؤقف اپنا لیا جاتا ہے، کیا ہم اس مؤقف کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں؟
کئی ایک اعتبار سے یہ "مشرق کے لیے ٹھیک ہے" کی نوعیت کی پالیسی کی طرح ہیں۔ یورپ کا مرکز ہونے کا نظریہ موجودہ عالمی نظام کی شریانوں میں سرعت سے سرایت کر چکا ہے۔ اس مؤقف میں دہشت گردی کے محض مغربی ملکوں کو نقصان پہنچانے کے وقت ہی اسے بد ترین اور فی الفور حل کی ضرورت ہونے والے ایک مسئلے کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ البتہ جب دہشت گردی اپنے گھناؤنے چہرے کو دنیا کے دیگر علاقوں میں دکھاتی ہے تو پھر یہی معاملہ مغرب کے لیے غیر اہم بن جاتا ہے۔ جو کہ در اصل اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جب دو طرفہ انحصار میں اضافہ ہوتا ہے ، تو جب تک تمام تر لوگ تحفظ میں نہیں ہوتے تو پھر کوئی بھی شخص حفاظت میں نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے قریبی ماضی نے کم ازکم ہمیں اس حقیقت کا درس ضرور دیا ہے۔
گزشتہ برسوں میں مغربی میڈیا نے PKK اور YPG کے دہشت گردوں کو رول ماڈل بنا رکھا ہے۔ اکتوبر سن 2014 میں جب داعش اور وائے پی جی کے درمیان جھڑپیں کوبانی شہر میں شدت سے جاری تھیں تو فرانسیسی جریرے میری کلیئر کے وائے پی جی کی صف میں شامل 12 تا 14 برس کے دو فوجی بچوں کی تعریف پر مبنی مضمون پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ جریدے نے ان فوجی بچوں کو متاثر کن اشخاص کے طور پر بیان کیا تھا۔ تا ہم پی کے کے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور دہشت گردوں کو ایک نیا امیج دینے کی خاطر امور پر کام آج بھی جاری ہے۔ سن 2017 کے ماہ مارچ میں شائع ہونے والے ایک کالم میں روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے پی کے کے کا نام لیے بغیر ترکی میں "سیکولر کرد اور داعش کے ملیشیا" کے طور پر دو دہشت گرد گروہوں کے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا ذکر کیا ہے۔ ایک دوسری خبر میں اس بات کا دعوی کیا گیا تھا کہ PKK دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ ، معصوم انسانوں کا قتل کرنے کے لیے مرد و خواتین پر مبنی عسکریت پسندوں کو بھیجنے کے خواہاں ہونے کا مظاہرہ کرتے وقت جنسی مساوات کا پرچار کرتے ہیں۔
معلمہ شنائے یالچن کی ہلاکت کی خبر کو میڈیا میں زیادہ کوریج نہ دیا جانا انتہائی خوفناک ایک اقدام ہے۔ دنیا پی کے کے کی ان کارستانیوں پر لازمی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ یہی تنظیم اب شمالی شام میں ایک علاقے پر قابض ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرح کی تنظیموں کے مطابق یہ تنظیم غیر کردیوں اور ان کی مخالفت کرنے والے کردوں کے خلاف جنگی جرائم کی مرتکب ہے، یہ انسانوں کو اپنے گھر بار کر ترک کرنے پر مجبور کر رہی ہے یا پھر انہیں جیلوں میں بند کر رہی ہے۔ مغربی میڈیا کسی نہ کسی شکل میں ان واقعات کو اپنے قارئین تک پہنچا رہا ہے۔ تا ہم ، یہ خبریں کمزور طریقے سے پیش کی جاتی ہیں۔ لہذا ان سے عوام الناس اکثر ناواقف ہی رہتے ہیں۔
یہ تمام تر پیش رفت سامنے آتے کے وقت گزشتہ برس ماہ اکتوبر میں باتمان میں تعینات کیے جانے پر سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کرنے والی استانی شنائے یالچن کی طرح کے نوجوان اساتذہ کئی چیزوں سے محروم بچوں کو ایک شاندار مستقبل دلانے کی خاطر اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا نے کے عمل کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی یادوں کو زندہ رکھنے اور ان کے شروع کردہ مشن کو جاری رکھنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرنا ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔