عالمی معیشت12
ترکی اور یورپ کے بگڑتے تعلقات کا معیشت پر اثر
16 اپریل کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم کے اثرات یورپی سیاست پر ابھی سے نمودار ہو رہے ہیں۔ دیار غیر بالخصوص یورپ میں بسے ترک نژاد باشندوں کو اس ریفرنڈم کے بارے میں آگاہی دینےکےلیے جو انتخابی جلسوں کا انعقاد کیا جانا تھا ان میں جرمنی اور بعد میں حکومت ہالینڈ نے رخنہ ڈال دیا جس سے انہیں کافی شرمندگی اٹھانا پڑی ۔
ان دونوں ممالک نے ترک رہنماوں کی آمد پر پابندیاں لگا دیں خاص کر ہالینڈ نے تو اس معاملے میں حد کر دی اور اُس نے ترک قونصل خانے کے سامنے جمع ہونے والے ترک مظاہرین پر ہلہ بول دیا ۔ جرمنی یورپ کا وہ ملک ہے جہاں ترک نژاد آبادی کثرت سے آباد ہے لہذا ترکی کے اس ملک کے ساتھ طویل عرصے سے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں مگر حالیہ عرصے میں ان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے جس سے یورپی یونین بھی متاثر ہو رہی ہے ۔
حالیہ دنوں میں غیر جمہوری طرز عمل سے خبروں کی زینت بننے والا ملک ہالینڈ رہا جو کہ توانائی کے عالمی مرکز کی اپنی حیثیت نہ گنوانے کےلیے ہر طرح کے گٹھیا حربے استعمال کر رہا ہے۔
مہاجرین کے مسائل سے کشیدگی کا شکار ہونے والے ترک۔یورپی یونین تعلقات میں مزید تناو ترکی میں ہونے والے ریفرنڈم سے مزید بڑھ گیا ۔ یہ ریفرنڈم متعدد مغربی ممالک کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے کیونکہ اگر یہ ریفرنڈم کامیابی ہوگیا تو ترکی میں صدارتی نظام متعارف کروایا جائے گا جس کے بدلے مین ملک ترقی و خوشحالی کی نئی راہ پر گامزن ہو سکے گا جس سے یورپی ممالک میں بے چینی طاری ہے کیونکہ وہ ترکی اس وقت ایسا ملک بن چکا ہے جو کہ یورپی یونین کی من مانی پر سر تسلیم خم کرنے سے منکر ہے ۔
چنانچہ یورپی ممالک 16 اپریل کے اس ریفرنڈم کو نقصان پہنچانے کےلیے ہر قسم کے حربے حتی ترکی سے سیاسی و تجارتی تعلقات خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
یہ بتاتے چلیں کہ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان تجارتی برآمدات کا تناسب 48 فیصد کے لگ بھگ ہے ۔
سن 1996 سے ترکی یورپی کسٹم یونین کا رکن ہے اور وہ سن 1960 سے متواتر یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کےلیے کوشاں ہے اور اللہ جانے یہ کس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی ۔
ابھی حال ہی میں ترک شہریوں کے لیے بلا ویزہ یورپی سیاحت کا موضوع بھی زیر بحث لایا گیا جس کے بارے میں یورپی یونین کسی قسم کی وضاحت دینے سے عاری ہے ۔
بہر حال اس موضوع کو صرف ہالینڈ اور جرمنی سے منسلک کرنا مناسب نہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سن 2008 کے معاشی بحران اور اس کے بعد کی صورت حال سمیت یورپی ممالک میں سیاسی تبدیلیاں یورپ کی سمت کا تعین کرنے میں کس قدر معاون ثابت ہوتی ہیں۔