قدم بہ قدم پاکستان - 10

شاہ فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان مسجد ہے مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع اس خوبصورت مسجد کا شمار دنیا کی بڑی مساجد میں ہوتا ہے جو اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے تمام دنیا میں مشہور ہے

689106
قدم بہ قدم پاکستان - 10

آئیے  !آج آپ کو شاہ فیصل مسجد اسلام آباد لیے چلتے ہیں۔

شاہ فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان مسجد ہے مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع اس خوبصورت مسجد کا شمار دنیا کی بڑی مساجد میں ہوتا ہے جو اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے تمام دنیا میں مشہور ہے۔ 1966ءمیں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کے دوران اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ زیر بحث آیا تو شاہ فیصل نے اس کی تعمیر کے اخراجات اپنے ذمے لے لئے۔ مسجد کے ڈیزائن کے لئے 1969ءمیں ایک عالمی مقابلہ کروایا گیا جس میں 17 ممالک کے 43 ماہرین تعمیرات نے حصہ لیا۔ چار دن بحث و مباحثہ کے بعد ترکی کے ماہر تعمیرات ویدت دالو کے  پیش کردہ نمونہ یا ڈیزائن منتخب کیا گیا اور ان ہی کی نگرانی میں مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ پہلے ان کے ڈیزائن کو مسجدوں کے روایتی گنبدوں اور محرابوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبانیں بند کر دیں۔

ترک ماہر تعمیرات ویدت علی دالو کے 10 نومبر 1927ءکو پیدا ہوئے۔ 1949ءمیں انہوں نے استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی سے آرکیٹکٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1952ءمیں انہوں نے سوربونے یونیورسٹی پیرس سے پوسٹ گریجویٹ کیا۔ 10دسمبر 1973ءکو وہ انقرہ کے میئر منتخب ہوئے اور 12 دسمبر 1977ءتک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔ 21 مارچ 1991ءکو بیوی اور 17 سالہ بیٹے کے ہمراہ ایک ٹریفک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔

شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کے لئے سعودی حکومت نے تقریباً 50 کروڑ روپے فراہم کئے جبکہ پاکستانی حکومت نے بھی وسائل فراہم کئے۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز پاکستان سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔ 1975ءمیں جب ان کا انتقال ہوا تو حکومت پاکستان نے یہ مسجد اور کراچی کی ایک اہم شاہراہ ان کے نام سے منسوب کردی۔ تب مسجد کی تعمیر کا ابھی باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا۔

12 اکتوبر 1976ءکو شاہ خالد بن عبدالعزیز نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ آٹھ سو سے زائد کارکنوں کی دس سالہ شب و روز محنت کے بعد 1980ءمیں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ مسجد کا رقبہ تقریباً 5000 مربع میٹر ہے۔ بیرونی احاطے کو شامل کرکے اس میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد میں کئی تعمیری اور تکنیکی خوبیاں موجود ہیں فن تعمیر جدید ہے لیکن ساتھ ہی عربی فن تعمیر کی عکاسی بھی کرتا ہے جو مسجدوں کے روایتی نمونوں سے مختلف ہے۔ اس میں کوئی گنبد نہیں ہے۔ اس کوایک خیمے کی شکل دی گئی ہے۔ مسجد کا وسیع ہال بغیر کسی سہارے کے بنایا گیا ہے۔ پوری چھت کے گرد لوہے اورکنکریٹ کے چار بڑے مینار ہیں جو چھت کو سہارا دیتے ہیں۔ ہر مینار کی بلندی تقریباً 260 فٹ ہے۔ 193 فٹ بلندی پر مشاہداتی گیلریاں بنائی گئی ہیں۔ جہاں سے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ گیلریوں تک جانے کے لئے سیڑھیوں کے علاوہ لفٹ بھی موجود ہے۔ مسجد کے مینار ترکی فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں جو عام میناروں کے مقابلے میں باریک ہیں۔

مسجد کے وسیع ہال میں تقریباً چھ ٹن وزنی فانوس اوردیگر لائٹیں بھی لگائی گئی ہیں۔ لائٹوں کے ساتھ چھوٹے سپیکر بھی لگائے گئے ہیں تاکہ روشنی کے ساتھ آواز بھی ہال میں پہنچے۔ ہال میں ایک قدرے اونچا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جواذان دینے‘ وعظ کرنے اورحسن قرات کے مقابلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہال میں دس ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ہال میں خواتین کے نماز پڑھنے کے لئے ایک گیلری بنائی گئی ہے۔ اس میں مغلیہ طرز کی جالیاں لگائی گئی ہیں۔ گیلری کے شاندار دروازے پر خط کوفی میں ”جنت ماں کے قدموں تلے ہے“ لکھا ہوا ہے۔ مشہور زمانہ پاکستانی خطاط صادقین نے دیواروں پر پچی کاری کے ذریعے قرآنی آیات تحریر کی ہیں جو فن خطاطی کا عظیم شاہکار ہیں۔ پچی کاری مغربی دیوار سے شروع ہوتی ہے جہاں خط کوفی میں کلمہ لکھا گیا ہے۔ ہال میں نامور صدارتی ایوارڈ یافتہ خطاط خورشید عالم گوہر قلم کا لکھا ہوا چالیس من وزنی قرآن پاک بھی الگ الگ پاروں میں موجود ہے۔ ہر پارے کا وزن ایک من ہے۔ یہ غالباً دنیا کا سب سے بڑا اور وزنی قرآن مجید ہے جو خورشید گوہر قلم کی خطاطی کا نادر نمونہ ہے جسے دنیا بھر سے آنے والے نمازی بڑے شوق‘ حیرت اور عقیدت سے دیکھتے ہیں۔

فیصل مسجد کی ظاہری خوبصورتی اور شان و شوکت کے علاوہ اس کی پائیداری پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ زلزلوں اور دیگر ممکنہ حادثات سے بچاﺅ کے لئے جدید سائنسی اصول اور عمدہ تخلیقی وتکنیکی مہارتوں کوبھی اپنایا گیا ہے۔ مسجد میں اعتکاف کے لئے حجرے بھی بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب میدان میں سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق کے مزار کی چھوٹی سی عمارت بھی موجود ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی فیصل مسجد کے ساتھ منسلک ہے۔ دنیا بھر سے طلبا و طالبات یہاں اسلامی اور جدید تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ اس کا معیار تعلیم پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کا ایک شعبہ دعوة اکیڈمی ہے جہاں مختلف شعبوں کے افراد کی تربیت کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ فیصل مسجد شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع ہے جو شہر کے آخر پر ہے جس کے آگے مارگلہ کی پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ مسجد کشادگی کے لحاظ سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ روشنی کا عمدہ انتظام ہے۔ رات کو روشنیوں سے جگمگاتی مسجد دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ مسجد سے متصل اسلامی ریسرچ سنٹر‘ میوزیم‘ لائبریری‘ بک شاپ‘ پرنٹنگ پریس‘ کیفے ٹیریا‘ انتظامی دفاتر اوردیگر عمارتیں بھی موجود ہیں۔

مختلف ممالک کے سربراہ ،سفیر اور سیاح اس مسجد کی خوبصورتی، جدت اور حسن تعمیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ترک نژاد نصرالدین مرات خان اورترک ماہر تعمیرات و انقرہ کے میئر ویدت علی دالوکے کی زیر نگرانی تعمیر ہونے والے بلند مینار پاکستان اور وسیع و عریض فیصل مسجد پاک ترک دوستی کی وسعت اور عظمت کی عمدہ مثالیں بھی ہیں۔

 



متعللقہ خبریں