پاکستان ڈائری - 07

رابعہ بختاور فرانس میں پیدا ہوئیں اور اپنی ابتدائی تعلیم بھی فرانس اور لندن سے حاصل کی ۔ان کے والد پاکستان سے فرانس کاروباری مصروفیات کی بنا پر منتقل ہوگئے تھے ۔ان کا بچپن کا زیادہ تر حصہ یورپ میں گزرا

674039
پاکستان ڈائری - 07

رابعہ بختاور فرانس میں پیدا ہوئیں اور اپنی ابتدائی تعلیم بھی فرانس اور لندن سے حاصل کی ۔ان کے والد پاکستان سے فرانس کاروباری مصروفیات کی بنا پر منتقل ہوگئے تھے ۔ان کا بچپن کا زیادہ تر حصہ یورپ میں گزرا ۔ہائی سکول کینیڈا سے مکمل کیا۔ڈبل میجر پولیٹیکل سائنس انٹرنیشنل ریلیشنز میں کینیڈا یورک یونیورسٹی سے کیا۔اسٹوڈنٹ یونین کی وائس پریذیڈنٹ رہیں ۔وہ اپنی یونیورسٹی کی پہلی مسلم اسٹوڈنٹ تھی جوکہ اس کی پوسٹ تک پہنچی ۔

انڈر گریجویٹ کے بعد لندن یونیورسٹی سے لاء  کی تعلیم مکمل کی۔وہ کہتی میری زندگی بھی ویسے ہی تھی جیسے تمام طالب علموں کی ہوتی ہے لیکن پھر ایک حادثے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ۔

میرا لندن یونیورسٹی میں پہلا سال تھا اور ایک حادثے میں میری ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوگئ۔میں عمارت کی تیسری منزل سے کنکریٹ کے فرش پر گری ۔میرا بچ جانا ہی اللہ کا معجزہ تھا ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ میں شاید دوبارہ چل نہیں سکوں گی اور بہت ماہ میں ویل چیر پر رہی ۔لیکن لندن میں ایک اچھے بھرپور طریقہ علاج کے سبب میں دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئ۔مجھے لندن کے ہیلتھ کئیر نے بہت متاثر کیا اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی جہاں تک ہوسکے گا ان افراد کی مدد کروں گی جن کو اچھی طبی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔مجھے دوسری زندگی ملی اس نے مجھ میں عاجزی پیدا کی اور اب مجھے دوسروں کے لئے کام کرکے سکون ملتا ہے ۔

میں نے صحت یاب ہونے کے بعد اپنی ڈگری مکمل کی ۔امریکا  بوسٹن میں کلارک ہنٹ اہرن اینڈ ایمبری لاء فرم جوائین کرلی ۔اس فرم کا ایک حصہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کرتا ہے میں اس کے لئے کام کرتی ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ مجھے وطن کی بھی یاد ستا رہی تھی میں نے یہ طے کیا اب میں پاکستان جاکر بھی کام کروں گی ۔میں پیدا یورپ میں ہوئی تعلیم بھی باہر حاصل کی لیکن ماں باپ کی تربیت اور پاکستان کی ثقافت نے مجھے پاکستان سے جوڑے رکھا ۔

میں ہینڈ ریچ  hand reach کے ساتھ کام کررہی ہوں پاکستان میں برن سینٹرز بہت کم ہیں لوگوں کم طبی سہولیات کے باعث جانبر نہیں ہو پاتے۔ہمارے ساتھ شائنر ہسپتال کے ڈاکٹرز بھی ہیں جوکہ ساوتھ ایشیاء میں اپنی خدمات دئے رہے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ یہاں پاکستان میں بھی جھلسے ہوئے افراد کو مکمل طبی امداد ملیں ۔

 

ہمارا ادارہ مستحق مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرواتا ہے اور ان کے اخراجات خود برداشت کرتا ہے ۔جنہیں باہر لئے کر جانا ہو ان کے لئے بھی انتظام کیا جاتا ہے ۔ابھی ہم نے پاکستان میں بہت محدود پیمانے پر کام شروع کیا ۔پاکستان میں ہمیں سی ڈی آر ایس کی معاونت حاصل ہے ۔آہستہ آہستہ ہم دائرہ کار بڑھائیں گے۔حال ہی میں ہم نے پمز انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ کی ہے تاکہ برن سینٹر میں آنے والے مریضوں کو ہینڈ ریچ بھی معاونت دے سکے۔

رابعہ بختاور کہتی ہیں پاکستان میں برن سینٹرز بہت کم ہیں ۔لوگ جھلسے ہوئے مریضوں کے لئے دوائی سرجری افورڈ نہیں کرسکتے جس کے باعث مریض دم توڑ دیتے ہیں ۔ابھی ہولی فیملی میں ننھی بسمہ جوکہ جھلس گئی تھی صرف اس لئے دم توڑ گئے کہ اس کے ماں باپ کے پاس سرجری کروانے کے لئے پیسے نہیں تھے ۔اس واقعے نے مجھے ہلا کر دیکھ دیا ۔کاش کہ ہمیں اسکا پہلے پتہ چل جاتا اس کی سرجری اگرایک ہفتہ پہلےبھی ہوجاتی تو وہ آج زندہ ہوتی ۔

رابعہ بختاور کہتی ہیں ایسٹر کے موقع پر لاہور پارک میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں محمد یاسین بری طرح جھلس گئے تھے ۔محمد یاسین اب ایک آنکھ سے دیکھنے سے بھی قاصر ہیں ۔تین بچے بیوی اور بوڑھے والدین کے وہ واحد کفیل ہیں ۔

دھماکے کے بعد ان کو مکمل طبی کئیر نہیں ملی تو وہ اب چلنے پھیرنے سے قاصر ہیں ۔ان کے لئے ہم نے ابتدائی طور پر 2000 ڈالر اکٹھے کئے ان کے علاج کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہوگیا ہے۔ہم نے پیسے ان کے علاج اور ادویات کے لئے ہسپتال کو دیے ۔بعض اوقات مریض کے لواحقین خود ہی امداد خرچ کرلیتے ہیں ۔اس لئے بہتر ہے امداد مریض کے علاج اور ادویات کے لئے دی جائے۔وہ کہتی ہیں ان کا بیٹا امتحان میں فرسٹ آیا تھا جس کا تعلیمی سلسلہ دھماکے کے بعد رک گیا تھا ۔اس کے لئے بھی تعلیمی فنڈ مہیا کیا گیا۔رابعہ بختاور کہتی ہیں ہینڈ ریچ اور کومریہنسیو ڈیزاسٹر رسپانس سروسز کے ذریعے سے مجھ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔



متعللقہ خبریں