ترکی کا ثقافتی ورثہ 48

شہزادوں اور امرا٫ کا شہر اماسیا

624528
ترکی کا ثقافتی ورثہ 48

شمالی ترکی میں واقع اماسیا تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے کافی اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اماسیا چودہویں صدی کے اعتبار سے عثمانیوں کے قبضے میں آگیا کہ جہاں مختلف بادشاہوں اور شہزادوں کی پرورش ہوئی اس لیے اماسیا کو شہزادوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔

تاریخ بھر یہ شہر مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا کہ جہاں سلجوکیوں کے بعد کچھ عرصے ارتانہ ریاست کا بھی اثر رہا ۔ اس شہر میں ہوا خشک اور سرد پائی جاتی ہے ۔
اماسیا حالیہ دور میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی اس توجہ کا سبب در اصل یہاں کی تاریخی اور ثقافتی رنگینیاں ہیں ۔ عموما غیر ملکی سیاح کاپادوکیا کے بعد اس شہر کی بھی سیر کو آتے ہیں۔
اماسیا اور اس کے قریب واقع تاریخی قبرستان،ہعشینا کا قلعہ، یالی بویو مکانات اہم سیاحتی مقامات ہیں اس کے علاوہ سلجوکی اور عثمانی ادوار سے وابستہ قبرستان بھی یہاں کے قابل سیر مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ شہر سے پینسٹھ کلومیٹر دور بورا بے نامی جھیل کے ارد گرد شاہ بلوط کے گھنے درخت ہیں کہ جہاں انسان پکنک منانے اور سستانے کےلیے آتے ہیں۔
اماسیا میں تاریخی عمارتیں بھی کم نہیں یہاں کا قلعہ اور اس کے آس پاس موجود پرانی قبریں ، ایزینے نامی سرائے ، بدستان اور پرانا حمام کافی مقبول تاریخی عمارتیں ہیں۔
اماسیا کا عجائب خانہ ،ہزار حویلی اور الپ اسلان کا عجائب خانہ یہاں کے اہم ترین مقامات ہیں ۔ عثمانی دور میں تعمیر کردہ ہزار حویلی شہر کے مرکز میں واقع حاتونیہ محلے میں واقع ہے کہ جسے انیسویں صدی میں حسن طلعت آفندی کی طرف سے تعمیر کروایا گیا تھا۔ ان کی بیٹی ہزیران خانم کے اس حویلی میں طویل عرصے قیام کی وجہ سے اسے ان کا نام دیا گیا ہے۔ روایتی عثمانی طرز تعمیر کی حامل یہ حویلی سن انیس سو چوراسی میں تاریخی مقام کا درجہ حاصل کر گئی ۔

اماسیا میں کثیر تعداد میں مساجد، مدرسے ،گنبد اور مزار موجود ہیں کہ جن کے درمیان مینار والی مسجد، کاپی آغا مدرسہ ،گوموشلو مسجد ،بایزید جامع مسجد ،فتحیہ مسجد، گوک مدرسہ اور مسجد ،خلیلیہ مدرسہ اور خلیفہ غازی کا گنبد قابل ذکر ہیں۔
خلیفہ غازی کا گنبد دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ جس میں کافی تاریخی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے ۔
اماسیا کے پراٹھے ، بھری ہوئی مرچیاں ، قدائف اور دیگر کھانے لذیذ ہیں ۔



متعللقہ خبریں