ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔35

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔35

562692
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔35

ترکی طویل عرصے سے کئی محاذوں  سے لاحق خطرات کیخلاف جدوجہد کر تا چلا آ رہا ہے ۔ حالیہ ایک برس سے داعش اور پی کے کے کےحملوں میں واضح اضافہ ہوا ہے ۔دوسری طرف چند برسوں سے دہشت گرد تنظیم فیتو نے بھی ترکی کے وقار کو عالمی سطح پر نقصان پہنچانے کے لیے اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دیا ہے ۔فیتو  کے حامیوں نے  15 جولائی کو   عوام کیطرف سے منتخب حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے بغاوت  کی جسے  عوام کی جراتمندی سے ناکام بنا دیا گیا ۔  فیتو کی اس کوشش کا مقصد ترکی کے وقار کو عالمی سطح پر ٹھیس پہنچانا تھا ۔

دہشت گرد تنظیم فیتو کی انقلابی کوشش کے فوراً بعد صدر رجب طیب ایردوان نے عوام سے جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آنے کی اپیل کی جس کے  بعد ترک ملت سڑکوں پر نکل آئی  ۔انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیتے ہوئے جمہوریت کی پاسداری کی۔ ترکی کے تمام اضلاع میں عوام نے ایک ماہ تک رات بھر  چوکوں میں جمع ہو کر  جمہوریت کا پہر ہ دیا ۔ عوام نے یک وجود بن کر  بغاوت کو کچلا ۔انقلاب کے بعد عوام  میں پہلے سے کہیں زیادہ اتحاد نظر آنے لگا ۔ بغاوت کو کچلنے سے بیرونی ممالک میں ترکی  کو بے بس کرنے کو کوششیں  ناکام ہوئیں ۔ اس صورتحال کے پیش نظر  ترکی نے 24 اگست کو ایسا قدم اٹھایا جس کا ارادہ اس نے 15 جولائی کی بغاوت سے پہلے کر رکھا تھا ۔

20 اگست کو غازییان تیپ میں ایک شادی کی تقریب کے دوران بم حملے کے نتیجے میں 54 افراد کی ہلاکت کے بعد ترکی حرکت میں آ گیا  ۔حالیہ ایک سال میں  دہشت گرد تنظیم داعش کے حملوں کیوجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 170 تک پہنچ گئی ۔ اب   اس  صورتحال کو فوری طور پر ختم کرنے اور  معصوم شہریوں پر بڑھتے ہوئے بزدلانہ اور سفاکانہ حملوں کے خاتمے کے لیے حرکت میں آنے کی ضرورت تھی ۔ اگرچہ  ترکی  اس تنظیم  کے ٹھکانوں کو ناکارہ بنانے کے لیے کافی عرصے سے جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے لیے بھر پور کاروائی کی ضرورت تھی۔

ترکی متعدد محاذوں   سے لاحق خطرات  کو   بیک وقت اور ایک دوسرے سے وابستہ  رہتے ہوئے جدوجہد کرنے  والے خطرےکی نظر سے دیکھتا ہے ۔ اس مسئلے کو اس انداز میں دیکھنے کی دو وجوہات پائی جاتی ہیں ۔  پہلی وجہ یہ ہے کہ  ان خطرات کی وجوہات اور ماخذات  کا مختلف نظر آنے کے باوجود ان کا ہدف ایک ہی ہے ۔دوسری وجہ کا تعلق   ایک ہی وقت پر حرکت کرنے  اور ایک دوسرے سے اورگینک تعلقات کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی  موجودگی کا تاثر دینے سے ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی ایک ہی صف میں موجود متعدد دشمنوں کا مشترکہ ہدف بن چکا ہے ۔ اس صورتحال کی روک تھا م کے لیے  ترکی نے فیتو کیخلاف جدو جہد کرنے کے ساتھ ساتھ اب  شام میں بھی ضروری قدم اٹھائے ہیں ۔

 ترکی  کی شام میں فوجی کاروائی کا مقصد صرف جرابلوس اور جوار کے علاقوں کو داعش سے پاک کروا نا نہیں  بلکہ شام میں داعش کے وجود کو اپنے  سٹریٹیجک مفاد میں بدلنے والی دہشت گرد تنظیم پی وائے ڈی اور وائے پی جی کے خلاف بھی حرکت میں آنا تھا ۔

امریکہ اور بعض اوقات روس کی حمایت کرنے والی یہ تنظیمیں شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مسلسل وسعت پیدا کرتے ہوئے ترکی کی سلامتی کے لیےخطرہ   بن گئی ہیں ۔ اس صورتحال کی روک تھا م کے لیے ترکی کو ان دہشت گرد تنظیموں  کا راستہ روکنے کی ضرورت تھی ۔

2014 میں داعش  کے  اچانک ہی عراق اور شام میں اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے میں امریکہ کے شامی کردی علاقے سے پی وائے ڈی اور اس کی مسلح قوت وائے پی جی کیساتھ قریبی روابط  نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ صورتحال شروع  سے ہی ترکی کے لیے ایک مسئلہ بن گئی تھی کیونکہ ترکی کی نظر میں پی وائے جی اور وائے پی جی شام میں  دہشت گرد تنظیم پی کے کے کا دوام تھیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ  یہ تنظیمیں 1970 سے ترکی  میں دہشت گردی کرنے والی تنظیم پی کے کے کی ہی شاخیں  ہیں ۔  حالیہ ڈیڑھ سال میں پی وائے ڈی کے علاقے میں مسلسل توسیع  کے عمل کو    ترکی اپنی سلامتی کے لیے خطرے کی نظر سے دیکھتاہے ۔

 شام کے صدر  بشار الاسد اور روس  کیطرف سےستمبر 2015 میں مخالفین کیخلاف شروع کردہ کاروائیوں   نے پی وائے ڈی کے لیے  موزوں فضا پیدا کر دی ۔  یہ تنظیم شام کے شمالی علاقے میں ترکی کی پوری سرحد سے ملحقہ علاقے کو اپنی حاکمیت میں لینے کے لیے حرکت میں آگئی ۔پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم کی نظر سے دیکھنے والے امریکہ کا پی وائے ڈی کا مختلف نظر سے جائزہ لینے سے بھی پی وائے ڈی کے حوصلے  بلند ہوئےہیں ۔

ترکی  کی تمام تر  انتبہات کے باوجود پی وائے ڈی نے شام کے شمالی علاقوں میں اپنی پیش قدمی کو جاری رکھاجو ترکی کی ریڈ لائن کو کراس کرنے کے مترادف تھی ۔ شام کے شمالی علاقوں میں پی وائے ڈی کے زیر کنٹرول علاقوں کے ملاپ اورترکی کے  عرب مشرق وسطیٰ کیساتھ مشترکہ سرحد کا خاتمہ ترکی کے  لیے ناقابل قبول   تھا ۔  علاوہ ازیں ،ترکی کی شام کی علاقائی سالمیت کی پالیسی کے لحاظ سے بھی پی وائے ڈی کی یہ کوشش ناقابل قبول تھی ۔حالیہ چند دنوں میں پی وائے ڈی کیطرف سے حیسیکے میں اسد قوتوں پر حملے بھی تنظیم کیطرف سے اپنے کنٹرول کو بڑھانےکی پالیسی کی واضح دلیل  ہیں ۔ ترکی کی طرف سے شام کی سر زمین پر فوجی کاروائی کو " فرات ڈھال  " نام دینے  کا مطلب پی وائے ڈی اور اس کے حمایتیوں کو ترکی کی ریڈ لائن کی یاد دھانی کروانا ہے ۔

یہاں پر اس موضوع کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ روس کا اس کاروائی کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت نہ کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر روس اس کی مخالفت کرتا تو امریکہ کیطرف سے کاروائی کی حمایت مشکل ہوجاتی ۔  ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ کچھ عرصے سے پائی جانے والی کشیدگی کے باوجود امریکہ کا کاروائی کی حمایت کرنا  اور  پی وائے ڈی اور وائے پی جی کوفرات کے مشرق سے پس قدمی کرنے کی اپیل کرنا  انتہائی معنی خیز ہے۔  صدر اسد نے بھی اس کاروائی کے نرم الفاظ میں مذ مت کی ہے اور اس کے گہرے حلیف ملک ایران نے بھی سخت رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر  15 جولائی سے پہلے یہ کاروائی کی جاتی تو روس ،ایران اور اسد کا کیا رد عمل ہوتا؟  امریکہ کا پی وائے ڈی سے متعلق موقف کیا ہوتا ؟  موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ  15 جولائی کی بغاوت  کی ناکامی نے اس عمل کی راہ کو ہموار کیا ہے ۔ موجودہ صورتحال سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان کے بغیر ترکی اور ترکی کے بغیر    خطے میں امن  نا ممکن ہے ۔



متعللقہ خبریں