دوستی مضبوط بنیادوں پر ۔ 05

فوڈ سیکٹرکسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے جس قدر منافع بخش ہے اسی قدر زحمت طلب اور توجہ طلب بھی ہے

562518
دوستی مضبوط بنیادوں پر ۔ 05

پروگرام" دوستی مضبوط بنیادوں پر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ فوڈ سیکٹرکسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے  بہت منافع بخش سیکٹر شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن جس قدر منافع بخش ہے اسی قدر زحمت طلب اور توجہ طلب بھی ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر  صبر طلب ہے کیوں کہ کسی دوسرے ملک میں اپنے ملک کے دستر خوان کو لے کر جانا  اور وہاں کے لوگوں کو اپنے ذائقے پسند کروانا  نہایت جسارت ، ہمت اور حوصلے کا متقاضی ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب اس ملک کے لوگوں کے ذائقے  آپ کے ذائقوں سے بہت مختلف ہوں۔ آج  کے ہمارے مہمان بھی ایسے ہی جرات مند ترک مہمت جلال اُلو تاتار   ہیں۔

 

 

مہمت جلال  اُلُو تاتار نے اپنی کہانی ہمیں سنائی اور اس کہانی کو ہم اسی طرح آپ تک پہنچاتے  ہیں۔ مہمت جلال    چار سال قبل اپنے بھائی کے ساتھ مل کر جاری پرندوں کی تجارت کے کام کے سلسلے میں پاکستان گئے ۔ پاکستان سے متعدد فرمیں پرندوں کی درآمد کرتی ہیں وہ بھی مئی 2012 میں پہلی دفعہ پاکستان گئے اور اس آمد کا مقصد پرندوں کی برآمد کرنے والی پاکستانی فرموں کے ساتھ ملاقات کرنا تھا۔

اس وقت وہ پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے نہ ہی یہاں ان کی کوئی جان پہچان تھی لہٰذا انہوں نے کراچی میں مقیم ترک باشندوں کے ساتھ رابطہ کیا اور ان کے ہاں ہی قیام کیا۔ ان کے ساتھ بات چیت کے دوران جلال صاحب  نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں ان کی  آمد کا مقصد پرندوں کی تجارت ہے تاہم ان کا  اصل کام فوڈ سیکٹر ہے اور   استنبول میں ان کا ایک ریسٹورنٹ بھی ہے۔ یہ سُن کر انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ترک ریسٹورنٹ نہیں ہے اگر آپ یہاں بھی ایک ریسٹورنٹ کھولیں تو یہ پاکستان کا پہلا ریسٹورنٹ ہو گا۔

 

مہمت جلال نے کہا کہ میرے دل کو بھی یہ بات جاذب لگی اور آپس میں دوست احباب کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد کراچی میں ایک ریسٹورنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے کراچی میں زیر تعمیر ایک نئے مال میں جگہ کا انتخاب کیا۔ مال کے مالکان نے   تین ماہ میں مال کی تعمیر مکمل ہونے کی بات کی لیکن تعمیر کسی طرح مکمل ہونے میں نہیں آ رہی تھی ۔ اس دوران میں کافی دفعہ ترکی سے پاکستان گیا اور پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ میں نے جانا کہ پاکستان میں کام سست رفتاری سے کئے جاتے ہیں۔

 

وقت تیزی سے گزر رہا تھا لہٰذا انہوں نے کراچی میں ایک نئے کھلنے والے 'ڈولمن مال " میں  جگہ دیکھی اور پسند بھی کی ۔ مال کے مالکان ایک مارکہ چاہتے تھے ایک مشہور نام چاہتے تھے جبکہ جلال صاحب پاکستان میں اجنبی تھے۔  لیکن  جلال صاحب کے مسلسل  اصررا کے نتیجے میں آخر کار انہوں  جگہ دینے کی رضا مندی ظاہر کر دی اور یوں پاکستان میں پہلا ترک ریسٹورنٹ کھُل گیا۔

جلال صاحب کو کام شروع کرنے کے بعد ترکی سے ماہر شیف پاکستان لے جانے ، پاکستانی ملازمین کو کام سکھانے اور پاکستانیوں کو ترک کھانوں کی طرف راغب کرنے میں متعدد دشواریوں کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا۔  اس وقت ان کے ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے سب ملازمین پاکستانی ہیں ۔  یہ ملازمین ایک نیا ہنر سیکھ چکے ہیں اور اب ایک غیر ملکی کے ریسٹورنٹ کو چلانے میں مدد کر رہے ہیں۔ یعنی جلال صاحب نے انہیں روزگار ہی نہیں دیا ایک ہنر بھی سکھایا  ہے۔

 

جلال صاحب پاکستان میں کام کرنے سے خوش اور مطمئن ہیں۔ اگرچہ انہیں پاکستان میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے ،   سکیورٹی کے مسئلہ نہیں ہے اور   وہ کام کو مزید پھیلانے کا ارادہ ر بھی کھتے ہیں  لیکن ملک میں عمومی معنوں میں  سکیورٹی کا خطرہ موجود  ہونے کی وجہ سے وہ ہر قدم نہایت محتاط شکل میں اٹھانا چاہتے ہیں۔

 

کہنے کی بات یہ ہے کہ  اقتصادی ترقی، کام کاج کے جاری رہنے اور صرف جاری رہنے ہی نہیں بلکہ سست رفتار سے ہی کیوں  نہ ہو آگے بڑھنے اور مستقل پھلنے پھولنے کا نام ہے۔  یہ رفتار  ملک کے  صرف بڑے بڑے شعبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر شعبے  کے لئے ضروری ہے۔ خاص طور پر فوڈ سیکٹر ایک ایسا سیکٹر ہے کہ جو کھانوں اور ذائقوں کے ساتھ ساتھ  دوستی محبت اور بھائی چارے کے جذبات کو بھی اپنے ساتھ  دوسرے  معاشرے تک پہنچاتا ہے۔

 

اس امید کے ساتھ کہ آنے  والے دنوں میں پاکستان میں موجود مسائل مکمل طور پر  قابو پا لیا جائے گا اور یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لئے آنے والے کاروباری حضرات کے دل میں کسی قسم کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہے گا۔



متعللقہ خبریں