ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 34

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 34

557601
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 34

پندرہ جولائی کودہشت گرد تنظیم فیتو کیطرف سے  انتخاب کے ذریعے بر سر اقتدار آنے والی حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کو ترک قوم نے جراتمندی اور جان  کی قربانی دیتے ہوئے  ناکام  بنا دیا ۔اس صورتحال سے نہ صرف ترکی کی اندرونی سیاست میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں بلکہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں بھی اہم نتائج سامنے آئے ہیں ۔ انقلابی عمل کے دوران  اور بعد میں بیرونی ممالک نے جو موقف اپنایا اس نے ترکی کی خارجہ پالیسی پر  موثر اثرات مرتب کیے ۔ امریکہ اور یورپی یونین نے انقلاب کے بعد انقلاب کی مذمت کرنے اور منتخب حکومت کی حمایت   میں موقف اپنانے میں بہت دیر کر دی ۔  یورپی یونین نے انقلابی کوشش کے مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد قطعی موقف کا اظہار کیا ۔ انقلاب کے بعد حکومت نے انقلابیوں اور ان کے حمایتوں کیخلاف حفاظتی مقاصد کے تحت جو تدابیر اختیار کیں امریکہ اور یورپی یونین نے ان پر سخت تنقید کی ۔ انھوں نے ایک لحاظ سے انقلاب کو ناکام بنانے والی ترک قوم اور حکومت کیطرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کیوجہ سے انھیں دھمکیاں دی ہیں  ۔

 دوسری جانب حالیہ چند ماہ سے ترکی کیساتھ کشیدگی رکھنے والے ملک روس اور ایران نے انقلاب کے فوراً بعد حکومت کی حمایت میں بیانات دئیے ۔  ان دونوں ممالک کی حمایت کی وجوہات کیساتھ وضاحت کی جا سکتی ہے ۔

۔روس اور ایران کا  مغربی ممالک کیطرف سےبراہ راست نہ سہی مگر خاموشی کیساتھ  انقلاب کی حمایت کرنے کا مشاہدہ کر نا۔

۔ روس اور ایران کا طویل عرصے سے فیتو کو اپنے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سر گرم عمل ایک تنظیم کی نظر سے دیکھنا۔

۔ دونوں ممالک کا  اپنی سرکاری پالیسی کے تحت ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی صورت میں ان کے سامنے پختہ موقف  اپنانا۔

۔سنگین بحران کے وقت ترکی کا ساتھ دیتے ہوئے بحران کے بعد جیو پولیٹک مفادات حاصل کرنا۔

  دہشت گرد تنظیم فیتو کیطرف سے  حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش  کو ناکام بنانے کے بعد صدر رجب طیب ایردوان نے سب سے پہلے روس کا اور اعلیٰ حکام  نے ایران  کا دورہ کیا۔ ان دوروں  سے یہ بحث و مباحثہ ہونے لگا کہ آیا صدر ایردوان اور انقلاب مخالف ترک میڈیا  کی مغربی ممالک پر تنقید کے بعد ترکی مغربی  محاذ سے علیحدہ ہو کر روس اور ایران کیساتھ اتحاد کرنا چاہتا ہے ۔ حتیٰ کہ  مغربی ممالک کے بعض تبصرہ نگاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ ترکی ایک یوریشیا اتحاد  کی جانب مائل ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کا  محور بدل گیا ۔ کیا حقیقت میں صورتحال ایسی ہی ہے ؟

یہ حقیقت  کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اق پارٹی نے اپنے 14 سالہ دور اقتدار میں ہمیشہ مغربی اتحاد کے اندر  رہتے ہوئے ہمہ پہلو خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی ترکی نے قومی مفادات کو صرف مغربی اتحادی سسٹم کے دریچے سے نہیں دیکھا ہے اس نے روس اور چین کیساتھ بھی  ہر شعبے میں اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔  ترکی نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے گہرے تاریخی روابط رکھنے والے مشرق  وسطیٰ کیساتھ روابط کو بھی گزشتہ حکومتوں سے بڑھ کر اہمیت دی ہے ۔  افریقی ممالک کیساتھ تعلقات کا فروغ اسی پالیسی کا حصہ ہے ۔

ترکی کے روس اور ایران کیساتھ اہم مفادات کی چپقلش شام کے بحران سے پیدا ہوئی ہے لیکن ترکی نے نئے علاقائی اتحاد کی کوششوں کیساتھ ساتھ ایران کیساتھ بھی  اپنے تعلقات کو  بہتر بنانے کو اہمیت دی ۔  اگر  ترکی کی حدود کی خلاف ورزی کرنے کیوجہ سے روسی طیارے کو مار گرانے کا واقعہ پیش نہ آتا  تو شام  سے متعلق نظریاتی اختلافات کے باوجود روس کیساتھ تعلقات بھی جاری رہتے ۔

 یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی نے انقلابی کوشش سے قبل روس اور ایران کیساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں  کی تھیں ۔ 5 مارچ 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم احمد داؤد اولو نے ایران کا اہم دورہ سر انجام دیا تھا ۔ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو دوبارہ جانبر کرنا تھا ۔ ان کے دورے کے دوران شام  اور مشرق وسطیٰ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے علاقائی ممالک کیطرف سے مشترکہ اقدامات اٹھانے کے معاملے پر  مطابقت پائی  گئی تھی ۔اپریل 2016 میں ایران کے صدر حسن روحانی نے اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے بعد ترکی کا سرکاری دورہ کیا ۔  انقلابی کوشش کے بعد وزیر خارجہ جواد ظریف  نے ترکی کا جو دورہ کیا وہ  بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

 روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے صدر ایردوان نے ماہ جون میں جو کوششیں کی تھیں ان کا ثمرہ ملنے لگا ہے ۔ روس کے صدر ولادیمر پوتن اور صدر ایردوان کےدرمیان نو اگست کو پیٹرز برگ میں  جو مذاکرات ہوئے ہیں ان کا پہلے ہی پروگرام بنایا جا چکا تھا ۔ 15 جولائی  کی انقلابی کوشش کے دوران مغربی ممالک کی نسبت  روس اور ایران نے  جو موقف اپنایا  وہ بلاشبہ حکومت ترکی کے لیے قابل تحسین ہے ۔یہ صورتحال خارجہ پالیسی کو  رخ دینےکا بھی سبب بنے گی ۔ ترکی کےمغربی  اتحادی سسٹم سے علیحد ہ  نہ ہونے کا اہم ترین اشارہ  16 اگست کو ترکی کی قومی اسمبلی کے خارجہ امور کے کمیشن  کیطرف سے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے خاکہ بل کی منظوری ہے ۔

صدر اور حکومت کے اعلیٰ حکام نے واضح الفاظ میں  یہ کہا ہے کہ ترکی مغربی اتحادی سسٹم سے علیحدہ ہونے کا ہر گز طرفدار نہیں ہے ۔ ترکی کا مغربی ممالک اور یورپی یونین پر تنقید کا مقصد خارجہ پالیسی میں کسی نئے محور کی تلاش کے بجائے ان ممالک کا دفاع کردہ اقدار  کو عملی جامہ پہنانے کی دعوت دینا  اور  مغربی ممالک کو اپنے مفادات کی صورت میں نظر انداز کیے جانے والے ڈیموکریسی ،آزادی اور مساوات جیسے اصولوں  کی یاد دھانی کروانا ہے۔  ترکی نے ان ممالک کو جمہوریت کے دعووں کے بجائے صحیح معنوں میں جمہوریت کا تحفظ کرنے کی دعوت دی ہے ۔



متعللقہ خبریں