ترکی کا ثقافتی ورثہ 30

ضلع وان کی تاریخ

543687
ترکی کا ثقافتی ورثہ 30

ترکی کی  سب سے  بڑی جھیل وان  کے نام سے منسوب  یہ شہر  جھیل کے کنارے آباد ہے ۔  آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتیجے میں  معلوم ہواہے کہ یہاں پہلی  آ بادکاری پانچ ہزار سال پہلے ہوئ تھی البتہ  وان  شہر کی اصل تاریخ  کے آثار نویں صدی قبل مسیح پر محیط  بتائے جاتے ہیں۔کیونکہ  وان اس دور میں   توشپا کے نام سے   مشرقی اناطولیہ   کی سب سے   مستحکم  ریاست تھی کہ جسے  اورارت قوم نے  منتخب کیا تھا ۔ اس   واقعے  کو تین ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن   اب  بھی وان میں اورارت قوم سے وابستہ کھنڈرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان میں وان کا قلعہ قابل ذکر ہے ۔ اس قلعے میں   بعض قبریں بھی ہیں  کہ جن پر پرانی تحاریر  اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔   اورارت قوم کی طرف سے تہذیب و تمدن کے گہوارے   وان  شہر میں واقع قلعوں میں  ہوشاب نامی قلعہ کافی نام رکھتا ہے۔انیسویں صدی میں  ویران  ہونے والا یہ قلعہ  تاحال اپنی  مضبوطی  اور شان و جلال قائم رکھے ہوئے ہے ۔ شامران نامی  کنال   کو  دنیا کے   پہلے بیراج کا بھی درجہ حاصل ہے  جسے اسی اورارت قوم نے تعمیر کیاتھا  ۔ دو ہزار آٹھ سو سال پہلے  بنائے  گئے اس اکیاون  کلومیٹر طویل  کینال کی تعمیر  کے بارے میں دور حاضر کے انجینئر بھی  حیران    و پریشان ہیں۔

بہترین تاریخی ورثے   کا حامل شہر وان اپنی جھیل کےحوالے سے بھی مشہور ہے ۔ یہ جھیل ترکی کی سب سے بڑی جھیل ہے  جس کا وجود کوہ نمرود  کے پھٹنے کے نتیجے میں  عمل میں آیا تھا ۔ اس  جھیل کاپانی نمکین      ہے  کہ جس میں سوڈے کی مقدار بھی پائی جاتی ہے۔اس جھیل میں میٹھے اور کھارے  دونوں پانیوں  کی صفات   موجود ہیں۔ اس جھیل میں  مچھلی کی ایک قسم پائی جاتی ہےجسے  مقامی زبان میں انجے کیفال کہتے  ہیں۔ سوڈے کی  آمیزش   کی حامل  یہ جھیل اس مچھلی کا مسکن  ہے   کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔

 اس جھیل میں چار عدد جزائر بھی موجود ہیں    کہ جن میں  اکدامار کافی مشہور ہے۔

 وان   کا  ذکر ہوتے ہی   یہاں کی مشہور بلی   کا نام  بھی لبوں پر آتا ہے   کہ جس کا شمار دنیا کی چند بہترین  اقسام میں ہوتا ہے۔  سفید  روئی  کی مانند اس بلی کی آنکھوں کا رنگ مختلف ہوتا ہے جو کہ دوسری نسل بلیوں  کے بر عکس پانی سے بھی لطف اندوز  ہونے کی صلاحیت  رکھتی ہے۔

وان جھیل کا پانی  سوڈے  کی آمیزش کی وجہ سے کافی شفا بخش بھی  ہے  جس   متعدد بیماریوں   کےلیے  مفید بتایا جاتا ہے۔ جھیل  میں  تیرنے والوں کے زخم جلد ہی  بھر جاتے ہیں   کیونکہ اس  پانی کی تاثیر جراثیم کش ہے  اس کے علاوہ  اگر سر میں خشکی یا سکری  ہو تو بھی اس جھیل کاپانی اس بیمارے سے بچاو میں  مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ استنبول یونیورسٹی   کے بعض سائنس دانوں کے مطابق   وان جھیل کا پانی دمے  اور  پھیپھڑوں کے امراض میں  اکسیر ہے  جبکہ    پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ  درجہ حرارت کے دوران  اگر اس جھیل میں   نہایا جائے تو یہ  پھیپڑوں کےلیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔

 وان شہر   زیر زمین  موجود  پانی کے چشموں  کے حوالے سے بھی  کافی شہرت رکھتا ہے ۔ وان کی تحصیل ارجیش میں  واقع حسن ابدال    نامہ چشمہ  کافی مشہور ہے  جو کہ  شہر سے  ۲۳ کلومیٹر کے فاصلے پر  واقع ہے ۔ اس چشمے کے  زنانہ و مردانہ  دو حصے ہیں۔ اس چشمے کا پانی چونسٹھ  سے چھیاسٹھ ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان    ہے  کہ جس میں  سوڈیئم ، بائی کاربونیٹ ، کلورین اور ہائڈروجن  سلفیٹ شامل ہیں۔ یہ پانی  جوڑوں کے درد ،  امراض تنفس  ،معدے اور آنتوں   کی بیماری میں مفید ہے ۔

 وان  شہر میں   معدنی پانی کے بھی کافی ذخائر موجود ہیں  ۔ سرائے نامی تحصیل    میں واقع کوشے باشی  ،اوز آلپ  تحصیل میں  بول بولوک ،گر پنار  تحصیل  میں یول دوشتو  اور باش قلعے   میں  واقع ہوزی    معدنی پانی کے چشمے   قابل ذکر ہیں۔


ٹیگز: #وان , #ترکی

متعللقہ خبریں