ترکی کا ثقافتی ورثہ25

حطیطی تہذیب اور اناطولیہ پر اس کے اثرات

515029
ترکی کا ثقافتی  ورثہ25

حطیطی قوم سے متعلق   تحقیق   حال ہی میں   دنیا کے سامنے لائی گئی ہے ۔ انیسویں  صدی   کے  وسط   سے یورپی اقوام  نے اپنے آباو اجداد  کا پتہ چلانے  کی خاطر  اناطولیہ سمیت  مشرق قریب کے متعدد علاقوں  میں کھدائیاں شروع کیں۔ اس حوالے سے  اناطولیہ  میں متعدد یورپی  ماہرین   آثار قدیمہ  تاریخ دان اور  ماہر لسانیات کی آمد ہوئی ۔ سن اٹھارہ سو  چونتیس   میں چارلس ٹیکسیئر  نے بوعاز  کوئے  میں حطیطی   دور  کے کھنڈرات   دریافت کئے ۔ ویلیئم جے  ہیمیلٹن    نے بھی سن اٹھارہ سو چھتیس میں  آلاجا ہویوک     کو بازیاب کیا ۔ ان اہم   بازیافتوں کے بعد  حطیطی  دور سے متعلق متعدد   مشاہدات سامنے آئے ۔ ان مشاہدات  کے ذریعے معلوم  ہوا کہ  حطیطی قوم کا تعلق  انڈو یورپیئن نسل سے  تھا     اور بوعاز کوئے کا پرانا نام حطی اور اس کے صدر مقام کا نام  حط طوشہ تھا ۔ تحقیق کے مطابق       حطیطی قوم تیرہویں اور چودہویں صدی قبل مسیح   میں مشرق قریب   کی   مضبوط ترین  سلطنت میں شمار ہوتی تھی کہ جس کی زبان حطیطی تھی۔

حطیطی سلطنت  کے ادوار   کے اہم ترین کھنڈرات   حط طوشہ  انقرہ سے  دو سو آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چوروم شہر کی تحصیل  سونگورلو سے ملحقہ بوعاز نامی دیہات میں واقع ہیں۔ حط طوشہ  میں آباد کاری کی تاریخ   قدیم تنج دور تک جاتی ہے  لہذا  بوعاز کوئے  کے قدیم شاہی ادوار  سے  منسوب  آبادیوں کے نشانات  یہاں  پائے جاتے ہیں۔ حطیطی قوم    نےاناطولیہ پر قبضےکے بعد  اس علاقے کو ایک مرکزی   شہر  کی حیثیت دلوا دی۔سولہویں صدی قبلم مسیح میں  حط طوشہ کو صدر مقام کا درجہ    دلوانے  وا لے  فرمانروا کا نام  حط  طوشیلی اول تھا ۔  آثار قدیمہ کی کھدائیوں کے  دوران    نکالے جانے والے بعض کتبوں  پر    فرمانروا   کی شان میں   کلمات  کندہ تھے۔ اس کے علاوہ    قریب المرگ  ہوتے  وقت وصیت نامے    میں  اس نے  اپنی جگہ تخت کے وارث کےلیے اپنی اولاد کے بجائے اپنے پوتے کا نام تجویز کیا تھا۔

 حطیطیوں سے قبل  کے دور  میں  حطی قوم    نے  حط طوشہ   میں  واقع بویوک قلعے   پر ایک محل تعمیر  کروایا تھا ۔ شہر  کے مغرب  میں  واقع بویوک قلعے    کو حال ہی میں  تعمیر کردہ سیڑھیوں کے ذریعے  زائرین   کی رسائی حاصل ہوئی ہے ۔ اس قلعے سے  پورے  بوعاز کوئے نامی دیہات کا نظارہ کرنا  ممکن ہے ۔

بویوک قلعے میں اس کے علاوہ  ایک  دیگر عمارت بھی موجود  ہے کہ جس میں پانچ انتہائی چھوٹے چھوٹے  کمرے ہیں۔  آثار  قدیمہ     کی  کھدائیوں   کے دوران   اس قلعے سے ہزارں کی تعداد میں  کتبے ملے ہیں  کہ جن سے پتہ چلتا ہے  کہ   ان کمروں کو ایک کتب خانے کے  طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔بویوک قلعے کے شمال  میں   شاہی خاندان   کی اقامت گاہ  کے قریب  ایک دیگر عمارت کے کھنڈرات  سن انیس سو چھ میں حطیطی شاہ  سوئم  اور  رامسیس دوئم کے ادوار  سے وابستہ تھے۔

حط طوشہ    کے شاہی دور   کے دوران  بوعاز کوئے    ایک وسیع علاقے  پر پھیل چکا تھا ۔  خاص کر    تیر ہویں صدی قبل مسیح کے  وسط میں   علاقے پر حاکم سوپیلوما اول  نامی فرمان روا نے اس علاقے کی ترقی کےلیے بہت کام کیا ۔ اس کے علاوہ  یازی لی قایا  میں  یادگار تعمیر کروانے والے فرما ں روا توختالیا  چہارم  کے دو ر میں  بوعاز کوئے  کا علاقہ مزید وسعت حاصل کر گیا ۔ بوعاز کوئے کے اطراف میں چھہ میٹر  بلند    دیواریں  تعمیر کی گئیں کہ جن  کے جنوب میں  دو دروازے موجود تھے۔ اس وسیع  و عریض علاقے میں  تقریباً تیس سے زائد معبد بھی    موجود تھے  کہ جن   کے مشترکہ احاطے  کے اطراف میں  کمرے بھی موجود ہوا  کرتے تھے۔ یہاں ایک بڑا سا دروازہ ہوا کرتا تھا  کہ جسے  باب شاہی  کہا جاتا تھا ۔

 حط طوشہ   میں سب  سے بڑا معبد  شہر کے  نچلے حصےمیں قائم تھا کہ جسے  حطو شیلی  سوئم نے بنوایا تھا ۔اس معبد    میں  ہوا دار   روشن دان اور کھڑکیاں بھی تھیں  کہ جہاں  اٹھارہ  راہب، انتیس خواتین  ،دس  گلوکار  اور موسیقاروں پر مشتمل کُل دو سو پانچ  ملازمین خدمت پر مامور رہتے تھے۔ تحریر ی دستاویز  سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ    ان معبدوں  میں  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  ملازمین کی تعداد سات سے تجاوز کر جاتی تھی ۔

بوعاز کوئے   سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر  یازل قایا  کا  کھلی ہوا  کا معبد  قدرتی  چٹانوں    سے بنایا گیا تھا کہ جس کی  صرف بنیادیں  ہی دور حاضر میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس معبد کے  دائیں  اور بائیں جانب   قطار کی شکل میں  دیوتاوں  اور دیویوں   کی شبیہات موجود ہیں۔ معبد کے  ایک  کمرے میں  فرمان روا  توختالیا  چہارم     کی ایک شبہیہ کندہ ہے   کہ جس میں  اُس نے  راہب  کالباس زیب تن کیا ہوا ہے ۔  ایک دیگر کمرے  کے دائیں جانب  بارہ عدد دیوتاوں   کی شبیہات موجود   ہیں کہ جن کے علاوہ  بائیں جانب    ایک دیوی    کی تین اعشاریہ  انتالیس میٹر طویل ایک دیگر شبیہ بھی موجود ہے ۔

حطیطی دور سے وابستہ ان  کتبوں پر  بعض تہواروں  کا بھی ذکر ملتا ہے   کہ جنہیں سال کے مختلف مہینوں   میں منایا جاتا تھا ۔ان تہواروں میں    تیز رفتاری کا تہوار     خاص اہمت  کا حامل تھا  ۔ان تہواروں  کے  بندو بست    کے تمام اخراجات شاہی خزانے سے ادا کیے  جاتے تھے۔

بارہویں صدی قبل مسیح   میں مغربی  علاقوں   سے آنے  والوں کے حملوں سے  اپنی   

 عظمت و جلال کھو دینے والی  حطیطی سلطنت  کا خاتمہ   ہوا  کہ جس میں  بوعاز کوئے سمیت   حطیطی قوم سے وابستہ تما م شہر  تباہ ہو گئے جبکہ ان حملوں   میں زندہ بچنے والے حطیطیوں نے  توروس کے پہاڑوں میں پناہ لیتے ہوئے  اپن زندگیاں وہاں گزاریں ۔

 حطیطی  ثقافت سے  متعلق کھنڈرات  اناطولیہ  کے  بین التہاذیبی عجائب خانے میں نمائش کےلیے موجود ہیں۔

 

 



متعللقہ خبریں