ترکی کا اُفق نو ۔ 24
آرمینی دعووں کی جرمن پارلیمان کی جانب سے قبولی ایک نا قابل قبول عمل ہے
جرمن وفاقی پارلیمنٹ نے 1915 اور 1916 کے درمیانی عرصے میں سلطنت ِ عثمانیہ میں آرمینیوں اور دیگر عیسائی اقلیتوں کےخلاف ' نسل کشی' کیے جانے کے ایک بل کو ایک مخالف اور ایک غیر جانبدار ووٹوں کے مقابلے تقریباً تمام تر ووٹوں کے ساتھ قبول کر لیا ہے ۔
یہ اقتدار و حزب اختلاف کی پارٹیوں کی جانب سے مشترکہ اتفاق ِ رائے سے قبول کردہ چند فیصلوں میں سے ایک ہے۔ خاصکر حزب ِ اختلاف کی گرین پارٹی کے شریک چیئر مین ترک نژاد جم ا وز دیمر نے اس فیصلے کی قبولی میں اہم کردار ادا کیا۔ در حقیقت اس بل کی منظوری کے بعد شکریے کی طویل تقریر اسی شخصیت نے کی۔
اس فیصلے کو کسی قسم کی کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے ویسے بھی دیگر ملکوں کی پارلیمان کی جانب سے اسی قسم کے فیصلے کوئی وقعت حاصل نہ کر سکے تھے ۔ فطری طور پر جمہوریہ ترکی دولت عثمانیہ کے دور میں ماجر ا پرست بعض ترک باشندوں کے گناہوں اور جرائم کا ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا حساب چکانے پر مجبور ایک فریق ہے۔ ویسے بھی مذکورہ دور میں سلطنت کی فوجی کمان میں جرمن فوجیوں کی تعداد عثمانی افواج سے زیادہ تھی۔ اس دور میں رونما ہونے والے واقعات عثمانیوں کے خلاف نسل کشی کے الزامات کا آلہ کار بنائے جا سکتے ہیں اور اگر ضروری تدابیر کا بڑی توجہ سے جائزہ لیے جانے کا کہنے والے یہی جرمن فوجی افسران تھے۔
اس دور کے واقعات کو کسی جنگ کے فطری نتائج کے طور پر دیکھنے والے جرمن آج تک اس موضوع پر کسی قسم کی بحث کھڑی کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں تو اب انہوں نے اس معاملے کو کیوں کر اچھالا ہے۔ ؟
کیا یہ در حقیقت اس محل و قوع پر رونما ہونے والے واقعات کے سامنے اپنے دلوں کے درد کو پیش کر رہے ہیں ؟ جرمنی میں تقریباً 40 لاکھ ترک شہری آباد ہیں؛ یہ قدم اس ملک کی عوام میں مزید عدم توازن پیدا ہونے کا موجب بنے گا۔
ابتک ایک اچھی سطح پر سوار ہمارے باہمی تعلقات کیونکر ایک صدی قبل پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے کے عقب میں دو بنیادی مقاصد کار فرما ہیں ۔ جن میں ایک اب فالج کی زندگی گزارنے والی ترک حزب اختلاف کو تھوڑا سانس لینے کا موقع فراہم کرنے پر مبنی ہے تو ترکی کے 2023 کے اہداف کے حصول کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے اسے دنیا کی پہلی دس اقتصادیات میں شامل کرنے کی کوششوں سے باز رکھنا ہے۔
دوسرا مقصد علاقائی پیش رفت کو پہلے کی طرح اپنے مقاصد کی راہ میں اسے شکل میں ڈھالناہے۔ پیمانے سے کھینچی گئی حدود سے مطلوبہ سطح پر نتائج حاصل نہ کرسکنے کی حقیقت بھی اسے اس کام پر مجبور کر رہی ہے۔