پاکستان ڈائری ۔ 20

پشاور کے مضافات میں 'اپنا دیا' نامی پرائمری اسکول کا دورہ

494985
پاکستان ڈائری ۔ 20

پشاور کے مضافات  میں "اپنا دیا" علم کی روشنی بانٹ رہا ہے ۔یہ پرائمری سکول بچیوں کے لئے میاں گجر گاوں کے ساتھ متصل اسلام آباد کرونا گاوں میں 2011 سے قائم ہے۔اس سکول میں ایسی 180 بچیاں پڑھ رہیں جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھانے سے قاصر ہیں۔تمام بچیوں کو سکول میں کتابیں اسٹیشنری اور یونیفارم مفت فراہم کیا جاتا ہے۔

اپنا دیا سکول  میں پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے۔یہاں بچیوں کو انگریزی اردو کے ساتھ ساتھ ریگولر نصاب پڑھایا جارہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کیا جارہا ہے پانچ سال پہلے جو بچیاں صرف کھیل کود میں مصروف نظر آتی تھیں اب انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے فرصت نہیں۔

( 'اپنا دیا' اسکول 2011 سے اسلام آباد کرونا گاوں میں قائم ہے 

اپنا دیا کی بانی اسماء منیر سلمان ہیں وہ اسلام آباد میں دو معروف سکولز میں انگریزی ادب پڑھاتی ہیں اور اپنا کے نام سے شیلٹر ہوم بھی چلا رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں تو بچوں کو تعلیمی سہولیات میسر ہیں لیکن پسماندہ علاقوں میں بچوں کو یہ سہولیات میسر نہیں اس لئے میں نے پشاور کے مضافات میں گاوں اسلام آباد کرونا میں یہ سکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔

 

( اسماء منیر سلمان بچوں کے ساتھ)

وہ کہتی ہیں جب کے پی کے میں سیلاب آیا اس وقت میں نے یہ علاقہ پہلی بار دیکھا میں اور میرے کچھ رشتہ دار وہاں امدادی سرگرمیوں کے لئے موجود تھے۔اس علاقے میں بچیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی لیکن ان کے لئے کوئی سکول نہیں تھا۔وہ کیچٹر میں لت پت کھیل رہی تھیں۔میں نے اس ہی وقت یہاں پر سکول بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

جب میں سکول بنانے کا فیصلہ کیا تو مجھے پریشانی تھی کہ کوئی مخالفت کا سامنا نا کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا گاوں میں کسی نے بھی سکول کی مخالفت نہیں کی گاوں والوں کے مطابق انہیں بچیوں کی تعلیم پر اعتراض نہیں بس وہ اتنا کماتے نہیں کہ بچیوں کی تعلیم پر خرچ کرسکیں۔اس لئے ہم نے سکول میں تعلیم مفت کردی ۔انہوں نے کہا میں نے اپنے خاندان اور کچھ احباب کی مدد سےاس علاقےمیں بلڈنگ خریدی اورسکول کاآغازکیا۔شروع میں صرف30بچیاں تھیں جن کی ان تعداد اب ماشاءاللہ 180تک ہوگئی ہے۔

شروع میں تو میں ہر ہفتے اسلام آباد سے پشاور جاتی تھی بچیوں کو خود تعلیم دیتی ان کو بلکل شروع سے ہر چیز سیکھانا تھی ۔وقت کے ساتھ ساتھ قریبی گاوں سے میں نے چھ ٹیچرز کو ہائیر کیا اور ٹرینڈ کیا کہ کس طرح سے بچوں کو پڑھنا ہے۔ہم بچوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا نصاب پڑھا رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں بچوں کو صرف پشتو آتی تھی انہیں اردو انگریزی سکھائی گئی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(بچوں کے لئے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر  نصابی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے)

اسماء کہتی ہیں کہ سکول میں بہت سی بچیاں ہیں جن میں بہت سے ٹیلینٹ چھپے ہوئے ہیں اگر وہ سکول نہیں آتی تو کوئی بھی ان کے یہ ٹیلینٹ ڈسکور نہیں کرپاتا۔ہم صرف پڑھائی نہیں کرواتے ان کی پرسنلٹی گورومنگ  پر بھی کام کررہے ہیں۔بچوں کو کھانے پینے کے آداب بھی سیکھائے گئے۔خود کو کیسے صاف رکھنا ہے ہاتھ دھونا اور ماحول کو صاف رکھنا کتنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہم بچوں کو دینی تعلیم بھی دئے رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں صبح بچیوں کے لئے کلاس ہوتی ہیں شام میں ان بچیوں کی بڑی بہنوں اور ماوں کے لئے لٹریسی کلاس ہوتی ہے۔

اسماء کہتی ہیں میں کسی این جی او کا حصہ نہیں نا ہی میں کوئی این جی اوز سے امداد لئے رہی ہوں ۔یہ سکول صرف میرے احباب اور گولیگیز کی طرف سے دیے جانے والے ڈونیشن پر چلتا ہے۔میں ان کی بہت مشکور ہوں ان کی مدد کی بنا یہ کام نہیں کرسکتی تھی۔میں چاہتی ہوں بس جہاں پر بھی کوئی مشکل کا شکار ہو وہاں پر ہمیں مدد کرنی چاہیے۔وہ کہتی ہیں جب کوئی پراجیکٹ شروع کریں تو اس پر پوری توجہ دیں بیچ میں چھوڑ نا دیں۔

 

 

 

(شام میں لڑکیوں اور خواتین کے لئے لٹریسی کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے)

استاد اور بچے کا رشتہ بہت مضبوط ہے اس رشتے میں پیار اور خلوص معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے۔اپنا دیا سکول میں چھ ٹیچرز اور 180 بچوں کی ذمہ داری اسماء منیر سلمان اور ان کے مخیر احباب کے ذمے ہے۔وہ ہر ماہ ایک لاکھ سے زائد کی رقم خود خرچ کرتے ہیں۔اگر ہم سب بھی اس نیکی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تو قطرہ قطرہ سمندر بن جائے گا۔ہر شخص شاید پیسے نہیں دیا سکتا لیکن اگر وہ اپنا علم  آگے منتقل کرے تو پاکستان میں کوئی بچہ علم کی روشنی سے محروم نہیں رہے گا۔

جویریہ صدیق ( صحافی، مصنفہ وفوٹوگرافر)

ٹویٹرایڈرس: @javerias



متعللقہ خبریں