اسلامی تعاون تنظیم استنبول سربراہی اجلاس پر ابراھیم قالن کا جائزہ

اسلامی تعاون تنظیم کا 13 واں اجلاس استنبول میں 14 تا 15 اپریل "انصاف و امن کے قیام کے لیے اتحاد و باہمی تعاون" ایجنڈے کے ساتھ منعقد ہوا

472141
اسلامی تعاون تنظیم  استنبول  سربراہی اجلاس پر ابراھیم قالن کا جائزہ

اسلامی تعاون تنظیم استنبول سربراہی اجلاس کے بعد : بلا ایک مثال کے ہم کیسے اتحاد قائم کر سکتے ہیں۔

سن 1969 میں قائم ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے بعد وسیع ترین پیمانے کی ایک بین الامملکتی تنظیم ہے۔ یہ مسلمان مملکتوں کا سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی معاملات پر بحث و مباحثہ کیا جانے والا ایک عظیم پلیٹ فارم ہے۔ ترکی کی طرف سے آئندہ کے دو برسوں کے لیے عبوری صدارت سنبھالنے والی اسلامی تعاون تنظیم کا 13 واں اجلاس استنبول میں 14 تا 15 اپریل "انصاف و امن کے قیام کے لیے اتحاد و باہمی تعاون" ایجنڈے کے ساتھ منعقد ہوا۔

یہ عنوان مسلم امہ کو آج در پیش ہونے والے مسائل اور ان کے چیلنجز کے حوالے سے کئی ایک حقائق سامنے لاتا ہے۔ علاوہ ازیں رکن ممالک کے سامنے موجود ہونے والے مواقعوں سے متعلق ہمیں بعض اشارے بھی دیتا ہے۔ سمٹ کا ایجنڈہ کسی واحد سادہ لیکن ایک کلیدی نظریے پر مرکوز تھا۔ بین الامملکتی اتحاد و تعاون کے بغیر امن و انصاف کا قیام نا ممکن ہے۔ موجودہ بے چینیوں کو دور کرنے اور حقیقی استعداد کو وقوع پذیر دینے کی خاطر مسلم مملکتوں کو ایک ایک کر کے رکن ممالک اور بیک وقت ایک گروپ کی حیثیت سے مشترکہ مفادات کو بالائے طاق رکھنے والے کسی ایجنڈے کو تشکیل دینا چاہیے۔ اس چیز کو کہنا کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے کیونکہ گروپ کے مفادات کے ہر کس کے لیے موزوں ہونے اور بیک وقت اس گروپ کے ہر رکن کے اندیشوں اور اولیت کو گروپ اور ارکان کو تقویت دینے کی شکل میں وضع کر سکنے والے کسی ماحول کا قیام ایک انتہائی کٹھن کام ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم میں در پیش مسئلہ در اصل اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی طرح کی دیگر بین الااقوامی تنظیموں کو سامنا ہونے والے مسائل سے مشابہہ ہے۔ ہر رکن گروپ اپنے مسائل اور خدشات کو اولیت دلانے والے کسی پلیٹ فارم کی حیثیت سے دیکھنے کے متمنی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کا سبب ہونے والے مسئلہ فلسطین کی طرح، مسلم اقلیتوں ، بین الاارکان تجارت و اسلامو فوبیا کی طرح کے مشترکہ مفادات کے حامل معاملات بھی پائے جاتے ہیں۔ تا ہم اس کے باوجود ان معاملات کی کس طریقے سے تشریح اور حل کیے جانے کے حوالے سے ہمارے درمیان تفرقہ پڑ جاتا ہے۔ رکن ممالک کی اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے لابی سرگرمیاں ایک فطری فعل ہے۔ یہاں پر کلیدی اہمیت کا حامل معاملہ ارکان کے واحدانہ طور پر مفادات کو ممکنہ حد تک بلند سطح تک پہنچانے کی راہوں کی تلاش کے وقت گروپ تعاون کو بھی اس کے ارکان کے مفادات کی ماہیت میں تقویت دلانے پر مبنی ہے۔ متحد ہونا اور باہمی معاونت اس نکتے پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

امن و انصاف محض موجودہ مسلم اُمہ کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل معاملات نہیں ہیں بلکہ بیک وقت اسلامی عقیدے ا ور رسم رواج کے بھی بنیادی جزو ہیں۔ اسمائے حسنہ میں شامل الاسلام و الا عادل کا مفہوم انصاف و امن ہے۔ 'اسلام' کا لفظ انہی دو الفاظ پر مربوط ہے۔ بنیادی مفہوم امن ہونے والے کسی دین کا عصر حاضر کی دنیا میں تشدد و دہشت گردی سے تعلق قائم کرنا انتہائی طعن آمیز صورتحال ہے۔ مزید برآں دین و مذہب کے نام پر اپنے آپ کو دھماکے سےاڑانے والے ، تشدد و دہشت گردی پر مبنی برتاو کو جائز قرار دینے کے لیے انصاف کے نام پر جنگ کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ امن و انصاف کو اس کے اصل مفہوم سے منحرف کیا جانے والا شاید ہی اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا معاملہ موجود ہے۔

حقیقت خداوندی کی بنیاد پر قائم امن و انصاف کی روایات انسانی اور کائناتی تخالیق کے درمیان توازن کا سبب ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ اگر انصاف نہ ہو تو امن کا حصول نا ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ امن کی بنیاد منصفانہ طرز عمل میں پنہاں ہے ۔امن کی کوشوں میں ناکامی نا انصافی کی وجہ سے ہوتی ہے اس کی تازہ ترین مثال فلسطین اسرائیل تنازعے کی صورت میں موجود ہے۔

اگر ہم آپس میں اتحاد و یک جہتی کا پرچار کریں تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ روایتی علمائے دین نے اتحاد کی جو مختلف تعریفیں پیش کی ہیں انہیں اپنانے کے بعد ہی ہم آپس میں اپنے اس اتحاد کو انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے مزید تقویت دے سکتے ہیں ۔

حال ہی میں استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کا تیرہواں اجلاس منعقد ہوا جس میں مسائل کی لمبی فہرست بیان کی گئی البتہ ہر مسئلہ اپنی اہمیت رکھتا ہے جس کے حل کےلیے مسلم امہ کو باہمی مشاورت اور تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

داعش،القائدہ،الشباب ،پی کےکے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا نشانہ مسلمان ہی بن رہے ہیں لہذا مسلم ممالک کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ مشترکہ تعاون اور خفیہ معلومات کے تبادلے کو مزید پختہ کریں۔

یہاں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ دہشت گردوں کو مارنا کافی نہیں بلکہ ہمیں دینی اور سیاسی انتہا پسند قائدین کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کو مذہب کی صحیح تعلیمات سے آراستہ کر سکیں۔

فرقہ پرستی، مسلمانوں کے درمیان انصاف و اتحاد کی راہ میں حائل ایک نفرت آمیز مسئلہ ہے جس کا نمونہ سنی شیعہ مسلکی اختلافات سے کہیں زیادہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور وہ عناصر ہیں جو کہ اپنے مفاد کی خاطر ان کی پشت پناہی کرتےہوئے ملک و وقم کے خلاف ایک خفیہ جنگ شروع کیے ہوئے ہیں۔

ایران ،عراق اور لبنان سے لے کر سعودی عرب،کویت اور پاکستان تک کے وسیع رقبے پر پھیلی یہ نفرت ہمیں مل کر ختم کرناہوگی اور ہمیں سنی شیعہ اختلاف مٹا کر اور یک جان و ہم فکر ہو کر قران کریم کی ہدایات پر اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہوتےہوئے ایک ہی قبلہ کی جانب رخ اختیار کرنا ہوگا۔

استنبول کے اجلاس کے اس کے علاوہ جن مسائل پر غور ہوا ان میں کمزور ریاستی نظام،جہالت،ناخواندگی،غربت، بے روزگاری ،ماحولیاتی خطرات،ناقص شہری منصوبہ بندی،مساوی حقوق کی کمی ،خواتین پر تشدد ، امداد انسانی اور محدود سرمایہ کاری بھی شامل تھے ۔

ان حساس موضوعات کا حل پلک جھپکتے ممکن نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر ہم آپس میں ہم فکری اور مفاہمت کی ڈور تھام لیں تو یہ تمام مسائل آہستہ آہستہ صداقت ،نیک نیتی اور مشترکہ تعاون کے نتیجے میں حل ہونا قطعی ممکن ہوگا۔

اگر ہم اپنے معاشروں ، بین الاقوام اور خطے میں امن و آشتی کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ دن دور نہیں جب مسلم امہ کو در پیش یہ تمام مسائل وقتاً فوقتاً حل ہو جائیں گے۔



متعللقہ خبریں