اسلامی تعلیمات 13

اسلام میں شیطان کا تصور

462931
اسلامی تعلیمات 13

ابلیس کا اسم ذات۔ عبرانی لفظ ہے مگر اہل عرب اسے بلس سے ماخوذ کہتے ہیں جس کے معنی ناامید ہونے کے ہیں۔ چونکہ ابلیس کو اللہ سے کوئی امید نہیں رہی اس لیے ابلیس کہلایا۔ اسے شیطان اور عدو اللہ ''خدا کا دشمن'' بھی کہتے ہیں۔ قرآن اس کا ظہور ابتدائے عالم سے بتاتا ہے۔ اس نے آدم اور حوا کو بہکایا اور شجر ممنوعہ کے کھانے کی اس لیے ترغیب دی کہ وہ کہیں ہمیشہ جنت میں ہی نہ رہیں۔ جب اللہ نے آدم میں روح پھونکی تو حکم دیا کہ تمام فرشتے اُسے سجدہ کریں سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم خاک سے۔ اس پر راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ اس نے اللہ سے قیامت کے دن تک کی مہلت طلب کی جو دے دی گئی اور لوگوں کو بہکانے کی طاقت بھی دے دی گئی۔

بائبل میں بھی یہ قصہ قریب قریب اسی طرح مذکور ہے۔ علامہ زمخشری اسے جن مانتے ہیں۔ کیونکہ قرآن میں ہے۔ کان من الجن ''وہ جن تھا'' مگر بہت سے علما اسے فرشتہ مانتے ہیں۔ اور بعض علما نے یہ بھی کہا کہ جن بھی فرشتوں میں شامل تھے جو جنت کے محافظ تھے۔ مگر جن نارسموم سے پیدا کیے گئے۔ اور فرشتے نور سے تخلیق ہوئے۔ ابتدا میں جن زمین پر رہتے تھے۔ وہ آپس میں لڑنے لگے تو اللہ نے ابلیس کو ان کے پاس بھیجا۔ بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس ارضی جنات سے تھا۔ ۔ شیطان ابتائے آدم کو بہکانے میں مشغول رہتا ہے ۔ مگر نیک بندوں پر اس کا بس نہیں چل سکتا۔

قرآن میں سب سے پہلے اس کا ذکر سورۃ بقر ہ کے تیسرے رکوع میں آتا ہے جہاں ابتدائے آفرینش اور سجدہ آدم کا ذکر ہے۔ ابتدائے آفریشن کے بیان میں اسے ابلس اور دوسرے مقامات پر شیطان کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ لیکن قرآن پاک میں شیطان کی جمع بھی آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پورا گروہ ہے۔ قرآن مں طاغوت بمعنی شیطان بھی جگہ جگہ آیا ہے۔ابلیس کو عابد کے نام سے پکارا جاتا تھا جناب سید سجاد الحسینی آف قبولہ لکھتے ہیں کہ جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالٰی نے عابد کو دربارِ اکبری سے نکال دیا اور کہہ دیا کہ تم ابلیس ہو پھر ابلیس کے نام سے مشہور ہوا اور جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام و حواء علیہ السلام کو بہکایا تو اللہ تعالٰی نے ابلیس کو لعنتی ٹھہرایا تو ابلیس کو شیطان کہا تب ابلیس دوزخی ٹھہرایا اور شیطان کے حامی بھی دوزخی ہی ہیں ۔

شیطان جیسے گمراه کرنے والے اور راستے سے بھٹکانے والے وجود کی خلقت کا کیا فلسفه هے؟ الله نے اسے کیوں پیدا کیا هے

اوّل یہ کہ انسان کی گمراہی اور انحراف میں شیطان کا کردار صرف اکسانے اور بہکانے کی حد تک ہے۔ دوم یہ کہ کمال ہمیشہ تضاد اور ٹکراؤ کے ماحول میں حاصل ہوتا ہے، اسی لئے بہترین نظام میں اس طرح کی مخلوق کو پیدا کرنا بیکار اور بے مقصد نهیں ہوسکتا، بلکه الله کی خالص رحمانیت اور خیریّت کا جلوه ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ الله نے شیطان کو پیدا نهیں کیا ہے کیونکہ وه سالوں تک فرشتوں اور عبادتگزاروں کا ہمنشین تھا لیکن بعد میں اس نے اپنے اختیار سے سرکشی اور انحراف کی راه اپنالی اور الله کی رحمت سے دور ہوگیا۔

دوسرے یہ کہ شیطان کا وجود ایمانداروں اور راه حق پر چلنے والوں کے لئے نقصان ده نہیں ہے بلکہ ترقی اور کمال کا وسیلہ ہےکیونکہ ترقی و کمال ہمیشہ تضاد اور مقابلہ کے ماحول میں حاصل ہوتے هیں۔

اس دنیا میں شیطان کا کردار اکسانے اور بہکانے کی حد تک ہےیعنی شیطان انسان کو گمراہی اور انحراف کی طرف صرف دعوت دیتا ہے الله نے اس کو نفوس میں تصرف کی قدرت اور ان پر تسلط نہیں دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ :اور بے شک اس کو ان لوگوں پر تسلط نہیں ہے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ شیطان ان لوگوں سے بحث کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تمهارے اوپر کوئی اختیار نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا۔

قرآنی تعلیمات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان کی گمراہی میں شیطان کا رول صرف اکسانے اور بلانے کی حد تک ہے اور وه انسان کو جبرا گمراہی کی طرف نهیں کھینچتا کیونکہ انسان دو طرح کی دعوتوں کا مخاطب ہے ایک الله کی طرف سے اور دوسری شیطان کی طرف سے اور انسان اپنے اختیار کے تحت ان دونوں میں سے کسی ایک کواپناتا ہے۔ ہاں جو لوگ اپنے اختیار اور ارادے سے شیطان کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں اور اسی کو اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں اور اس کے احکام کی پیروی کرتےہیں شیطان ان کے اوپر قابو اور تسلط حاصل کرلیتا ہے اور ان کو نابود کرکے رکھ دیتا ہے۔


متعللقہ خبریں