ترکی کی امدادی سرگرمیاں - 4

مہاجرین کے کیمپوں میں سردی کا موسم جلدی آتا ہے۔ بہتا پانی پہلے کیچڑ بنتا ہے اور بعد میں برف میں تبدیل ہو جاتا ہے

427019
ترکی کی امدادی سرگرمیاں - 4

پروگرام " ترکی کی امدادی سرگرمیاں" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ مہاجرین کے کیمپوں میں سردی کا موسم جلدی آتا ہے۔ بہتا پانی پہلے کیچڑ بنتا ہے اور بعد میں برف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ایک چھوٹی لڑکی کے دماغ میں بھائی چارے کا لفظ ایک گرم بوٹوں کی جوڑی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عراقی مہاجرین کے کیمپوں میں ترکی کی طرف سے جو امدادی سرگرمیاں کی جا رہی ہیں ان میں سے بعض کو ہم آج ،ترکی ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کے حوالے سے، آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

موسم سرما میں سب سے زیادہ مہاجرین ٹھٹھرتے ہیں۔۔۔ ان مہاجر کیمپوں میں سردی کا موسم جلدی آتا ہے۔ نہ صرف جلدی آتا ہے بلکہ بے رحم بھی ہوتا ہے۔ مہاجرین کے کیمپوں میں قطاروں میں خیمے لگائے جاتے ہیں ۔ خیموں کی ہر قطار کو ایک گلی کی طرح خیال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خیمے ہنگامی طور پر لگائے جانے کی وجہ سے ان کا انفراسٹرکچر بھی نہیں ہوتا۔ جب بارش برستی ہے تو اس کا پانی خیموں کے اوپر سے خیموں کے اس درمیانی فاصلے یعنی گلی میں گرتا ہے اور یہ راستے کچھ دیر کے بعد کیچڑ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ وہ جگہ صرف خیموں کا درمیانی راستہ یا گلی ہی نہیں بچوں کے کھیلنے کی جگہ بھی ہے۔ ہر مہاجر کیمپ کے وسط میں ایک خالی جگہ ہوتی ہے جسے اجتماع یا میٹنگ کی جگہ کے طور پر خیال کیا جا سکتا ہے۔ مہاجرین خیموں سے نکل کر اس خالی جگہ میں آتے ہیں ایک دوسرے سے ملتے اور بات چیت کرتے ہیں۔ ان کی یہ صحبتیں زیادہ تر ان کے ملک کی ان جھڑپوں کے بارے میں ہوتی ہیں کہ جن کہ وجہ سے وہ مہاجر بننے پر مجبور ہوئے۔ ادھوری اور سنی سنائی معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ جنگ کے ختم ہونے کے قریب ہونے کی امید کو مستقل تازہ کیا جاتا ہے اور جلد از جلد اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ باپ اور بھائی جب اس کھلی جگہ پر بات چیت کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف بچے بھی ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ دوڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ جگہ جہاں وہ کھیل رہے ہوتے ہیں وہاں بارش کا پانی اور کیچڑ بھی ہوتا ہے۔ اور اگر برفباری ہوجائے تو ہر طرف برف جم جاتی ہے لیکن بچے آخر بچے ہیں جو کھیلنے کی وقت کسی چیز کی پروا نہیں کرتے۔

دہشت گرد تنظیم داعش کے عراق پر پہلے حملے کے بعد شمالی عراق میں بھی مہاجر کیمپ لگائے گئے اور کُرد، عرب، ترکمین اور یزیدی کنبوں کو ان کیمپوں میں رکھا گیا۔ کنبوں کے ساتھ ہزاروں بچے بھی ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دئیے گئے۔ جھڑپوں اور جنگوں میں کسی قسم کا کردار نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہی تھے۔

بہت ممکن ہے کہ اپنے گھر بار میں بھی انہیں کچھ زیادہ سہولتیں میسر نہ ہوں لیکن پھر بھی انہیں سردی سے برفباری سے بچانے کے لئے ایک اوورکوٹ اور پیروں کو کیچڑ سے بچانے کے لئے بوٹ ضرور ہوں گے۔ کچھ کنبے بچوں کے موٹے لباس اور بوٹ ساتھ لا سکے کچھ نہیں لا سکے۔ جن کے پاس کوٹ اور بوٹ موجود تھے وہ بھی کچھ عرصے کے مسلسل استعمال کے بعد چھوٹے پڑ گئے کیوں کہ خواہ مہاجر کیمپ میں ہی کیوں نہ ہوں بچے بڑے ہوتے رہتے ہیں۔

شمالی عراق کے شہر زاہو کے جوار میں برسیوا نامی کیمپ میں ہزاروں بچے ہیں جن میں 860 لڑکیاں ہیں۔ نگاہوں کے سامنے ایک تصویر کھینچیں ، اس کیمپ میں سردی کا موسم آ گیا ہے۔ سرد ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ کیمپ کی گلیاں جگہ جگہ پانی اور کیچڑ سے بھر گئی ہیں۔ ان گلیوں میں ادھر سے ادھر دوڑتی ان لڑکیوں کے پیروں میں معمولی چپلیں ہیں جو کئی دفعہ ٹوٹ چکی ہیں اور ہر ٹوٹنے پر ان کی ماوں نے انہیں دوبارہ مرمت کیا ہے۔ بدن پر کوٹ سے مشابہ چیز ہے جسے ان کی ماوں نے کہیں سے تلاش کیا ہے۔ ایسی صورت میں ان بچوں کے ماں باپ کی نگاہیں جس طرف اٹھتی ہیں وہ ترکی سے آنے والے ترکی ہلال احمر اور ترکی ترقیاتی و اقتصادی تنظیم 'TİKA ' کے منتظمین ہیں۔ یہاں ترکی ہلال احمر اور تیکا کی امدادی کاروائیاں دہشت گرد تنظیم داعش کے حملوں کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھیں جو ابھی تک جاری ہیں۔

امداد کی فراہمی کے لئے پہلے کیمپ میں ایک مختصر تحقیق کی جاتی اور بچوں کی صورتحال کا ان کی موجودگی کی جگہ پر جائزہ لیا جاتا ہے۔ عمر کے گروپ کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اورپھر کسی صبح بچے جب خیموں سے نکل کر خالی میدان میں آتے ہیں تو ان کا سامنا ہلال احمر کے امدادی ٹرکوں سے ہوتا ہے۔ ان ٹرکوں میں ایسی امدادی اشیاء موجود ہوتی ہیں کہ جن کا ان حالات میں وہ خیال تک نہیں کر سکتے۔کنبوں اور بچوں کی قطاریں بنائی جاتی ہیں اور باری آنے پر جب وہ امدادی کارکن کے سامنے آتے ہیں تو ہلال احمر کا امدادی رکن بچے کے پاوں کے نمبر کو دیکھ کر ایک کارٹن میں ہاتھ ڈال کر رنگین بوٹ نکالتا ہے بچے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ کارکن بوٹ بچے کے پاوں میں پہناتا ہے اور کسی دوسرے کارٹن سے اندازے کے مطابق ایک اوور کوٹ نکال کر پہناتا ہے اور ایک شفقت بھرے بوسے کے ساتھ بچے کو روانہ کرتا ہے۔ اب اس 7 سالہ بچے کے پاوں میں بوٹ اور جسم پر موٹا کوٹ موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس خیال سے وہ اپنے پرانے سلیپروں اور چپلوں کو نہیں پھنکتے کہ ہو سکتا ہے گرمیوں میں ان کی ضرورت پڑے۔ ان پھٹے پرانے جوتوں کو اپنے ماں باپ کو تھماتے ہیں اور ایک نومولود میمنے کی طرح خوشی سے بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کا منظر چند روز بعد تیرکوک کے قریب لیلان تحصیل میں واقع یحیٰ وا کیمپ میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس دفعہ ترکی ہلال احمر اور تیکا نے مہاجر کنبوں میں موسم سرما کی خوراک ، جوتے اور موٹے لباس کی امداد فراہم کی۔ ترکمین فرنٹ کے حکام انہیں تنہا نہ چھوڑنے پر ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔

دوستی اور بھائی چارے کی ہزاروں شکلیں ہیں ۔ بھائی چارے کو بعض اوقات ایک پلیٹ کھانے اور ایک گرم کوٹ سے بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ترکی اپنے بھائیوں کی امداد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔

عراق کے مہاجر کیمپ کے بچوں کے لئے امدادی کاروائیوں کا خلاصہ ترکی ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کی زبان سے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔



متعللقہ خبریں