کوچۂ فن و ادب - 20

صدیق منظر کی یادداشت میں ٹھہرتے ہوئے موسموں میں جگنوئوں سے جاگتے جنگل، بادلوں کو چیرتے شمشاد،کوئل اور قمریاں، جھیل اور چشمے ، بارشوں کی رم جھم اور طلسمِ آرزومیں ناچتے مورایک ایسا شاعرانہ ماحول تخلیق کرتے ہیں جیسے جام میں ہو عکس، رقص کوہ قاف کرے

286979
کوچۂ فن و ادب - 20

صدیق منظر نے اپنے تئیں معتقدِ میر ہونے کا اعلان کیا ہےلیکن ان کی شاعری غالب کی فکری اُڑان ،اقبال کے فلسفہ ء خودی ، فیض احمد فیض کے انقلابی رومانس اور احمد فراز کی بے باکانہ اور عاشقانہ طبیعت سے جڑی ہوئی ہے ۔وہ اپنے پیش رو اور معاصر شعراء سے متاثر ضرور ہوئے لیکن کسی کانصابی اثر قبول نہیں کیا۔یہی انکار ان کے شاعرانہ اظہار کی انفرادیت بھی ہے۔
آنسو تیری آنکھوں سے ہمارے نکل آئے
ہم عکس تری ذات کا منظر تیرے ہم ہیں
من و تُو کی یہ منزلیں اتنی آسانی سے سر نہیں ہوتیں۔راستے میں بے مہر موسموںکی ہوائیں سر پٹکتی ہیں۔صبابے ناشتہ بے حال کرتی ہے اور محبت کی فاقہ مستی اپنی جولانیوں بھری نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ہری پور کے پہلو میں زمزمہ خواں ندی دوڑ ہے کہ رگوں میں دوڑتے پھرتے خون کی طرح دوڑتی پھرتی ہےاور اس کے کنارے قاضی جمیل الرحمان کےسرائے صالح سے پروفیسر محمد ارشاد مکھناں اور صوفی عبدالرشید کے سکندر پور تک جندروں کے گنگناتے آبشار ہیں جن کی تال پر خوبانیوں، آلوچوں،امرودوں، جامنوں، شیشموں،چناروں اور پیپلوںکے سایے رقص کرتے ہیں۔مسجدوں کے باوضو تالاب ہیں۔مندروں میں اشنان کرتے زینے ہیں۔مسلم ، ہندو، سکھ ، عیسائی ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہیں۔سرمد و سقراط کے قبیلے ہیںاور ایک سربلند شب آفتاب کہ جس کی روشنی میں قافلے آکر ٹھہرتے ہیں۔
جو سربلند ہو سولی سے مر نہیں سکتا
علی بھی زندہ ہے اور ذوالفقار بھی زندہ
صدیق منظر کی یادداشت میں ٹھہرتے ہوئے موسموں میں جگنوئوں سے جاگتے جنگل، بادلوں کو چیرتے شمشاد،کوئل اور قمریاں، جھیل اور چشمے ، بارشوں کی رم جھم اور طلسمِ آرزومیں ناچتے مورایک ایسا شاعرانہ ماحول تخلیق کرتے ہیں کہ جیسے جام میں ہو عکس، رقص کوہ قاف کرے۔
ہم غبارِ روشنی میں کھو گئے تھے اور وہ
گیسوئوں کی شام راہوں پر کیے پھرتا رہا
یہی غبارِ روشنی ہے جو صدیق منظر کی شاعری کو غبارِ میر کی تفسیر نہیں ہونے دیتا۔ان کی طبع رواں جہاں جہاں بھی غزل کی روایت یا نظم کی جدت سے ہمکلام ہوتی ہے ، نئے سرے تعارف کا منظر نامہ بناتی، چھب دکھلاتی آگے بڑھتی جاتی ہے۔دستِ پدر سے گال مسلتی ،اماں جی کی یاد میں چلتی بے عنوان محبت کی یہ شاعری تبدیلی کا منظر نامہ ہے۔جو چائلد لیبر کی تمثیلی نظم سے شروع ہوتا ہے۔جشن ِ آزادی کی کی خودکلامی میں کھل کر گفتگو کرتے ہوئے تربیلہ جھیل کے المیے کی یاد دلاتا 2005 کے زلزلے کا نوحہ لکھتا ہے۔شہادتِ بے نظیر پر آئینوں کی طرح ٹوٹتا،بازوئے قاتل میں کرچیوں کی طرح چبھتا،دروازہ ء شوریٰ پر دستک دینے لگتا ہے۔جہاں تماشا گرسیاست کے مداری،اشتہاری ہیں۔پارلیمان سے خطاب کے دروان تبدیلی کا ایک ایسا شاعر جنم لیتا ہےجو دشتِ امکان سے آگے تمنا کے دوسرےقدم سے قدم ملانے لگتا ہے۔
تم اب کے لوٹ کر جائو گے اپنے گائوں ، گلیوں اور شہروں میں
تو اپنے چوک، چوراہے،صلیبیں، سولیاںخود منتخب کر لو
تمہیں اب آخری موقع یہ بے بس قوم دیتی ہے
اگر چاہو تو خود کو سرخرو کر لو
یہاں شاعری کے ساتھ ساتھ شاعر بھی سرخروہوا ہے۔کہ رہنمائی کا فریضہ بھی اس نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔گہرے سیاسی شعور اور فکری بالیدگی نے صدیق منظر کو زمانہ ء حال کے نمائندہ شعراء کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ان کی شخصیت میں ایک خاص محبوبیت اور شاعری میں جاذبیت ہےجو اس چاہ سے اپنی جانب کھینچتی ہے کہ آپ فاصلے آواز کے ناپنے لگتے ہیں۔
جو کسی کے کچھ نہیں لگتے ہیں ان سے پوچھ لو
کس کی آہٹ پر تڑپ کر کھڑکیوں میں آ گئے
کھڑکیاں صدیق منظر کے ڈکشن میں کہیںاُمید، کہیںسفر،کہیں ستارے،کہیں چاندنی اور کہیںچراغ کے استعارے کے طور پر جا بہ جا نیم وا دکھائی دیتی ہیں۔آنکھیوں میں پتلیوں کی طرح جم جانے والے یہ مناظر ان اشعار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انہیں گلاب نہ کہتا تو اور کیا کہتا
لہو لہان جو پھولوں کے موسموں میں تھے
کبھی ستارے کبھی عہد ٹوٹ جاتے ہیں
یہ حادثے بھی تو شامل محبتوں میں تھے
اداس ہو گئے منظر وہ مسکراتے ہی
میں جانتا ہوں مرے دوست الجھنوں میں تھے
فکری الجھنوں کو سلجھاتی صدیق منظر کی شاعری آنے والے نئے زمانوں کی بانگِ درا ہے۔ شاخ درشاخ پروئے ہوئے دل اس کی صدا سے جاگتے اور رنج و الم کی سولیوںپر سوئے ہوئے دماغ اس کی ندا سےبیدار ہوتے ہیںاورپکارپکار کر اس دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہمارا
یہاںنہ پانی نہ بارشیں ہیں
یہ خالی خالی گزرتے بادل
یہ آسمانوں کو تکتی آنکھیں
بس ایک منظر پہ سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں
صدیق منظر کے کے ؕصنم خانے میں سجی ایک ایک تصویر دیدہء نم ہے۔گونجتی ہوئی خاموشی ہے۔ہجوم ِ دوستاں میں پھیلتی تنہائی ہے۔جنگل کی رات ہے، شب آفتا ب ہے جس کی روشنی میںایک دعا ہے،جس کا احساس ایک وفا ہےاور جس کے پاس ایک انا ہے۔جدید شاعری کے منظر نامے پر یہی تبدیلی کی ابتداء ہے۔
اک شمع کہ جلتی ہے ابھی تیری گلی میں
اک آنکھ کے جھانکے ہے اُسے روزنِ در سے
اک روز تو ٹوٹے گی کماں تیر سے پہلے


ٹیگز:

متعللقہ خبریں