عالمی ایجنڈا ۔ 112

224073
عالمی  ایجنڈا ۔ 112

عالمی ایجنڈا۔ 112
یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے منسک میں ہونے والےسربراہی اجلاس میں فائر بندی کا معاہدہ طے ہوا۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل ،فرانس کے صدر ہولاند کی ثالثی کی کوششوں کے نتیجے میں روس کے صدر ولادیمر پوتن اور یوکرین کے صدر پروشینکو
نے مذاکرات کے دوران 13 شقوں پر مبنی امن معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کی رو سے جنگ کے علاقوں لوہانسک اور ڈونیٹسک میں 15 فروری سے فائر بندی پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا ،علاقے کو بھاری ہتھیاروں کو پاک کیا جائے گا ،انتخابات کروائے جائیں گے اور یوکرینی انتظامیہ میں انضمام کا عمل شروع ہو جائے گا ۔یورپی سلامتی اور تعاون تنظیم اس عمل کی نگرانی اور کارڈینیشن کرئے گی اور اس بارے میں رپورٹ تیار کرئے گی ۔اس معاہدے کے ذریعے یوکرین میں تقریبا ایک سال سے جاری جنگ کو ختم کیا جائے گا ،جنگجو ہتھیار ڈالیں گے اور روسی فوجیں جنگ کے علاقے کو ترک کریں گی لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد میں کسقدر کامیابی ہو گی ،یہ معاہدہ کسقدر منصفانہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عمل کے اختتام پر روس کو کسقدر فائدہ ہو گا ۔ اس بارے میں متعدد نظریات موجود ہیں ۔بعض حلقوں کیمطابق روس نے اس معاہدے سے اپنی ظفر کا اعلان کیا ہے اور اس سے غیر منصفانہ نتیجہ نکلا ہے ۔ مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ منسک معاہدے سے یوکرین میں جنگ سے پہلےکے حالات پیدا نہیں کیے جا سکے ہیں اور روس کیطرف سے الحاق کیے جانے والے کریمیا کے علاقے کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے ۔ دراصل معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد سے بھی یوکرین کو پوری طرح خودمختاری نہیں مل سکے گی ۔یوکرین انتظامیہ نہ ڈونیٹسک اور لوحانس کے علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں کیطرح حاکمیت قائم کر سکے گی اور نہ ہی کریمیا اور بحیرہ اسود کے ساحلوں پر دوبارہ اپنا اثرو رسوخ قائم کر سکے گی ۔اسکا یہ مطلب ہے کہ یوکرین کو جنگ سے پہلے جو خود مختاری حاصل تھی اس میں کمی آئی ہے اور روس کے یوکرین پر اثرات پختہ ہو گئے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ روس اس معاہدے سے جرمنی اور فرانس پر اپنے اثرو رسوخ کو سامنے لایا ہے ۔اسطرح روس نے منسک سربراہی اجلاس کیساتھ فوجی وسعت پسندی کی پالیسی کو یورپی ممالک سے قبول کروا لیا ہے ۔اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حق بجانب اور منصفانہ امن نہیں ہے ۔
مگر ہر واقعے کیطرح یوکرین کے مسئلے کو بھی مثبت لحاظ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔منسک معاہدے کو مصالحت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس کی وجوہات کی تحقیقات کر نے اور انھیں دور کرنے کی ضرور ت ہے ۔اس معاہدے کا بہترین پہلو یہ ہے کہ اس سے ایک سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔اس جنگ سے یوکرین کو سخت نقصان پہنچا ہے اور اگر اس جنگ کو نہ روکا جا سکتا تو اس کے مزید سنگین نتائج سامنے آتے ۔یوکرینی فوج اور مزاحمتی قوتوں کے ایک دوسرے کو مغلوب کرنے تک جنگ کو جاری رکھنے سے دونوں فریقوں کو سخت نقصان ہوتا ۔ 1980 سے لیکر 1988 تک ایران اور عراق کے درمیان جاری رہنے والی جنگ کیطرح ۔یوکرین کی جنگ بھی اسلحے اور توازن کے لحاظ سے طرفین کو سخت نقصان پہنچاتی ۔توازن کی جنگ کو طول دینے کے بجائے امن کے لیے سر گرم ہونا عقلمندی ہے۔اس کی دوسری مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ترکی نے جنگ نجات کے دوران عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونان اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک برطانیہ اور فرانس کیساتھ جنگ کرنے کے بجائے مونٹرو اور لوزان معاہدوں پر دستخط کیے تھے ۔
 اصل سوال یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ میں روس کو فوجی برتری حاصل تھی لیکن اس کے باوجود اس نے کیوں معاہدہ کیا ہے ۔ روس کے یوکرین پر حملے میں سب سے پہلے یورپی یونین کیطرف سے روس کے حامی یانو کوویچ کو سول انقلاب کیساتھ معزول کرنے او ر اسکے بعد یورپی یونین ،امریکہ اور نیٹو کا رو س کو فوجی ڈیٹیرنس نہ کرسکنے نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔امریکہ اور نیٹو کا روس کیخلاف فوجی مداخلت نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فوجی مداخلت سے جنگ مزید شدت اختیار کرتے ہوئے پھیل سکتی تھی ۔
مغربی ممالک نے روس کیخلاف فوجی قوت استعمال کرنے کے بجائے یوکرین میں مداخلت کیوجہ سے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔ یورپی یونین ،امریکہ اور مغربی اداروں نے روس کو اقتصادی ،تجارتی اور سب سی اہم اس کے توانائی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں۔ روس کے لیے سب سے بڑی مشکل حالیہ چند مہینوں سے گرتی ہوئی پٹرول کی قیمتیں تھیں ۔دراصل منسک معاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کو اقتصادی پابندیوں سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ مغربی ممالک نے فوجی قوت استعمال کرنے کے بجائے نرم لیکن طاقتور حربوں سے روس کو نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس صورتحال کیوجہ سے روس منسک معاہدےکو قبول کرنے پر مجبور ہوا ہے ۔اس نقطہ نظر سے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ منسک معاہدہ روس کی ظفر نہیں ہے بلکہ وہ پابندیوں کیوجہ درپیش مشکلات کیوجہ سے یہ معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہو ا ہے ۔اس معاہدے کا یورپی یونین یوکرین اور مغربی ممالک کے روس کو مراعات دینے کے بجائے روس کے مجبوراً رضامند ہونے کی شکل میں جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ہر معاہدے کیطرح منسک معاہدہ بھی آخری معاہدہ نہیں ہے۔ آئندہ چند دنوں میں نئی اور ہنگامی پیش رفت کے منظر عام پر آنے کا احتمال پایا جاتا ہے۔جس کے بعد اس معاہدے سے کون سے فریق کے برتری حاصل کرنے کا پتہ چلے گا ۔اگر یہ معاہدہ روس کی ظفر ہے تو اس سے یوکرین اور مغربی ممالک کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر روس نے پابندیوں کیوجہ سے اس معاہدے کو قبول کیا ہے تو پھر روس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اس طرح روس نہ صرف یوکرین بلکہ مسئلہ شام کے بارے میں بھی کوئی نیا معاہدہ کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں