عالمی ایجنڈا۔ 111

217450
عالمی ایجنڈا۔ 111

 
" کونسا اسلام ، کونسی تہذیب " عنوان بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ" کونسا مغرب کونسا یورپ "عنوان ہے ۔ اس کا مقصد نظریاتی تجزیہ کرنا ہے ۔ مغرب اور یورپ کی جس مختلف نظریے کیساتھ وضاحت کی گئی ہے وہ اسلام اور تہذیب کے نظریات کے لیے بھی معتبر ہے ۔اس سوال کہ اسلام کیا ہے اور دنیا کے بارے میں اس کے تصورات کیا ہیں؟ کے کئی طریقوں سے جواب دئیے جا سکتے ہیں ۔روز مرہ کے ایجنڈے سے اس کی مثال اسطرح دی جا سکتی ہیں کہ بعض مسلمان اور داعش ، بوکو حرام اور القائدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پردہشت گردی اور ظلم و تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تاریخ میں ان جیسی دہشت گرد تنظیمیں موجود نہیں تھیں ۔ماضی میں موجود حسن صباح اور حشحاشی اور حضرت محمد کے داماد اور چوتھے خلیفہ حضرت علی کو شہید کرنے والے خارجیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بلاشبہ ان تنظیموں کا دین اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مسلمانوں کی اکثریت ان تنظیموں اور ان کی کاروائیوں کیخلاف ہے کیونکہ اسلام کسی قسم کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے ۔
۔۔۔اسلام دراصل قران کریم اور حضرت محمد کی حدیثوں اور سنت سے وابستہ احکامات ،پابندیوں اور مشوروں پر مبنی دنیاوی اہداف کی ایک شکل ہے ۔ اسلام مسلمانوں کو ان احکامات کی روشنی میں طرز زندگی اپنانے کا حکم دیتا ہے لیکن انسان ان احکامات اور مشوروں پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں آزاد ہیں ۔ قران کیمطابق دین میں زبردستی نہیں ہے ۔دوسری طرف اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کا موضوع علماء کرام کے تفسیر سے وابستہ ہے ۔حضرت محمد کی وفات کے بعد واحد تفسیر کرنے والی کسی اتھارٹی کی عدم موجودگی کیوجہ سے اسلام کے بارے میں مختلف نظریات وجود میں آئے ہیں ۔15 ویں صدی میں اسلامی نظریات اور تہذیب کی تاریخ کا جائزہ لینے سے سنی اور شعیہ نظریات کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے لیکن وقت کیساتھ ان دونوں فرقوں کے اندر بھی مختلف نظریات نے جنم لیا ۔سنی فرقے کے اندر خارجی متضلی ،فقی ،تصوفی اور سلفی فرقے اور شعیہ فرقے کے اندر بارہ اماموں کے فرقے، اسماعیلی، زیدی اور جعفری جیسے فرقے معرض وجود میں آئے ۔اسلامی نظریات کیساتھ ساتھ 200 سالہ ماڈرن دور میں نئے نظریات بھی سامنے آئے ۔
جدید دور میں مختلف نظریات کے منظر عام پر آنے کی بنیادی وجہ اسلامی ممالک کا طاقتور عالم مغرب کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ کرنا اور مغلوب ہو نا ہے ۔ مسلمان ممالک سائنسی علوم اور عالمی سیاست میں اپنا لوہا منوانے والےترقی یافتہ مغربی ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔اسلامی ممالک کی سرزمین پر مغرب نے قبضہ کر لیا ہے اور اسلامی ثقافت پر مغربی ثقافت کا رنگ غالب ہے ۔اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ بکھر گیا ہے اور اسلامی ممالک اپنے اندرونی اختلافات اور خلفشاروں کیوجہ سےبٹ گئے ہیں ۔اسلامی ممالک کو اس دلدل سے نکالنے ، اپنے وجود کے تحفظ کے لیے اور دوبارہ طاقتور بننے کے لیے متعدد نظریات کو سامنے لایا گیا ہے ۔جمال الدین افغانی کی زیر قیادت مسلمان دانشوروں اور دیگر مذہبی گروپوں کیطرف سے پیش کردہ نظریات کی تین حصوں میں وضاحت کی جا سکتی ہے ۔پہلا گروپ اس نظریہ کا دفاع کرتا ہے کہ اسلامی ممالک کو مغربی ممالک کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے اور طاقتور بننے کے لیےجدید بننے کی ضرورت ہے ۔وہ سلطنت عثمانیہ کے دور کے جدید نظریات کے حامی عثمانیوں ،مصر کے گورنر مہمت علی پاشا اور مصطفی کمال اتاترک جیسی سوچ رکھتے ہیں ۔دوسرا گروپ مسلمانوں کیطرف سے اسلام کے حقیقی ذرائع کی جدید پیش رفت کے دائرہ کار میں تجدید کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے ۔جدت پسندوں کا ایک خاص طبقہ سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کیساتھ مہذب بننے کی راہ پر گامزن ہے جبکہ ایک طبقے نے معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے جدید بننے کے نظریے کا دفاع کیا ہے ۔ تیسرےنسل پرست اور بنیاد پرست گروپ کیمطابق مسلمانوں کے عالم مغرب کیخلاف جدوجہد کرنے سے ہی اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس جدوجہد کے طریقہ کار کے بارے میں متضاد نظریات موجود ہیں ۔جدوجہد کے سیاسی اور آئیڈیولوجک ہونےکی ضرورت کا دفاع کرنے والے سید قطب ،مولانا مودودی اور خمینی جیسے مفکرین اور سیاستدانوں کیساتھ ساتھ فوجی اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مغرب کیخلاف جدوجہد کرنے کے حامی گروپ بھی موجود ہیں ۔نسل پرستوں کے نظریات بھی حالیہ چند برسوں سےمنظر عام پر آنے والے داعش ، بوکو حرام اور القائدہ جیسی تنظیموں کی دہشت گردی کے سامنے ہیچ ہیں کیونکہ ان تنظیموں کی کاروائیوں کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ ان تنظیموں کیطرف سے دفاع کردہ نظریات اسلام کیخلاف ہیں ۔مثلاً دہشت گرد تنظیم داعش کیطرف سے انسانوں کو زندہ جلانا اور انھیں پھانسی دینا انتہائی وحشت ناک سلوک ہے ۔ اسلام نے ہمیشہ پیارو محبت اور شفقت سے پیش آنے کی ہدایت کی ہے ۔اسلام کے نظریات ،پیغام اور روایات سے آگاہی رکھنے والے مسلمان ایسی سفاکانہ حرکات کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتے ہیں ۔اس موضوع پر عالمی سطح پر کروائے جانے والے سروے کیمطابق داعش جیسی تنظیموں کو 1٫7 ارب نفوس کا مالک عالم اسلام سختی سے رد کرتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے ۔ان تنظیموں کو قران اور سنت کی تعلیمات سے ہٹ کر دین کو اپنے گھناؤنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے ۔ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق موجود نہیں ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں