ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 52

صدائے ترکی سے جدائی کے لمحات

170163
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 52

گو کہ میں ایک صحافی ہوں لیکن مجھے ترکی کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ کیوں کہ دنیا میں بہت سے ممالک موجود ہیں اور ہر ملک کی الگ تاریخ، الگ ثقافت اور الگ پہچان ہوتی ہے۔ اس لیے ہر کوئی ہر کسی ملک کے بارے میں نہیں جان سکتا۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ترکی سے پاکستان کے دیرنہ دوستانہ تعلقات بہت پرانے ہیں اس لیے ذرائع ابلاغ سے ترکی اور پاکستان کی دوستی کے حوالے سے معلومات حاصل ہوتی رہتی تھیں۔ ترکی کے بارے میں اتنا ہر پاکستانی جانتا ہے کہ کمال اتا ترک ترکی کے ہیرو ہیں جنہوں نے ترکی کو نئی روح نئی زندگی اور نئی جلا بخشی اور یہ بھی کہ ترکی دنیاکا وہ واحد ملک ہے جو بیک وقت خطہ ایشیاء اور یورپ کا حصہ ہے اور استنبول اس کا خوبصورت اور بڑا ترین شہر ہے ۔
ترک پاکستان سے اور پاکستانی قوم سے بہت پیار کرتے ہیں مجھے کچھ اور جاننے کی جستجو نے ٹی آر ٹی سے جوڑ دیا 51کالم آپ ریڈیو صدائے ترکی پر اور اس کی ویب سائٹ پر 'ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر 'کے عنوان سے سن اور پڑھ چکے ہیں اور آج 52 واں اور آخری کالم میری کاوش کے گرد آپ کی رائے کا منتظر ہے۔
آج یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ترکی کا حصہ تھا، آج میرا ترکی کا ویزہ ختم ہو گیا ہے اور اب مجھے ترکی کو خیرباد کہنا ہے جب سے میرا رابطہ ٹی آرٹی سے ہوا میں کالم کے موضوع کی تلاش میں لگا رہا ۔میرا شوق میرا جنون بڑھتا ہی چلا گیا اور میری معلومات میں اضافہ ہوتا گیا ۔کوئی شبہہ نہیں کہ میرے کالم میں میرے لکھنے میں غلطیاں نہ ہوں آخر کار انسان ہوں اور انسان ہی غلطی کرتا ہے۔ لیکن اس دوران مجھے صدائے ترکی کے سٹاف کی رہنمائی حاصل رہی جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور پایا ۔ میں نے اپنے طور پر ترکی کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بھی لکھا جو کہ قدیم زمانے سے شروع ہوئی ۔ علاوہ ازیں جدید ترکی کی ترقی ، عالمی سطح پر اس کی بلند ساکھ اور کامیابیوں پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔ اور جب رجب طیب ایردوان وزیر اعظم تھے تو ان کی محنت اور کامیاب پالیسی کی بدولت ترکی نے جو زبردست ترقی کی اسے میں شاید لفظوں میں بیان نہ کرسکا کیوں کہ جب میں نے اس سے متعلق مواد کا مطالعہ کیا اور ترکی کی تاریخ پڑھی تو اس کے بعد مجھے یوں لگا کہ اگر ترکی کو رجب طیب ایردوان جیسا وزیراعظم نہ ملتا تو شاید ترکی آج بھی ترقی پزیر ممالک کی صف میں ہی رہتا۔
بعض مرتبہ تو میرا دل چاہتا کہ کاش طیب اردوان پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے لیکن یہ خیالی سوچ تھی کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیر اعظم اور صدر دونوں کا پاکستانی ہونا ضروری ہے، ویسے بھی موجودہ دنیا میں شاید ہی ا یسا ممکن ہو۔ لیکن جس طرح ترکی اور پاکستان نے ایک دوسرے کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہماری دوستی اور محبت ایک ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس وقت پاکستان کے لیے ترکی رول ماڈل کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ ترکی کی دوستی پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی ہے لیکن جو دلی جذبہ ترک اور پاک تعلقات میں ہے وہ کہیں اور کم ہی نظر آتا ہے کیوں کہ پاکستانیوں کے لیے ترکی وہ واحد ملک ہے جہاں گرین پاسپورٹ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ترک بھی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
بات صفائی کی ہو یا جدید تعمیرات کی ترکی نے پاکستان کی معاونت کرکے پاکستان کی معیشت کو سنبھلنے میں خاصی مدد فراہم کی ہے جس کی بہترین مثال ترکی کے تعاون سے لاہور میں میٹرو بس سروس کا کامیاب منصوبہ ہے۔ جس سے آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد بہت کم نرخ پر با آسانی اور کم وقت میں ایک دوسری جگہ آ جا سکتے ہیں۔ میں جب بھی میٹرو بس میں سفر کرتا ہوں تو میرے دل سے ترک اور پاکستانی قیادت کے لیے دعائی کلمات ہی نکلتے ہیں۔ ترکی نے پاکستانیوں کے لیئے تعلیمی شعبے میں خاصی آسانیاں لائی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سے بہت سے طلبا و طالبات ترکی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔یہ ترکی کی کامیابی ہی تو ہے جو اسے ہر مقام پر نمایاں کرتی ہے ۔ترکی نے جب زیر زمین سُرنگ بنا کر ایشیا کو یورپ سے ملانے کا اعلان کیا تو دنیا کی نگاہیں ترکی کی جانب تھیں کہ اب کیا ہوتا ہے لیکن ترکی نے ایسا کرہی دکھایا ۔ اسی طرح جب ترکی نے دنیا کا سب بڑا ایئر پورٹ تعمیر کرنے کا سوچا تو لندن، امریکہ اور جرمنی کی نیندیں حرام ہو گئیں۔
لیکن ترکی نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اس کا سنگ بنیاد رکھ کر ہی دم لیا اور آج ترکی نے امریکہ کے وائٹ ہاؤس اور جرمنی کے صدر کی رہائش گاہ اور لندن کے بکھنگم پیلس سے بھی بڑا صدارتی محل بنا کر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں ۔ترکی تو ویسے ہی فن تعمیر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھہساتھ یہ دنیا پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔ جہاں کسی کی مدد کرنی ہو تو یہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتا اور اگر کسی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو تو یہ ذرا بھی دیر نہیں کرتا۔ بڑے تو بڑے ترک بچے بھی پاکستان سے محبت کے اظہار میں آگے آگے ہیں۔ مجھے یاد ہے آج بھی وہ لمحہ جب ایک ترک بچی نے اپنی پاکٹ منی پاکستان میں آنے والے زلزلے میں امداد کی خاطر دے کر اپنی محبت کا احساس دلایا اور اس لمحے کو کوئی کیسے بھلا دے، جب ترک خاتون اول نے اپنا قیمتی اور اپنے شوہر کی نشانی اپنے گلے کا نیکلس پاکستانی عوام کو سیلاب میں امداد کے طور پر دےدیا ۔
ترکی نے کہاں کہاں دوستی کا حق ادا نہیں کیا ترکی نے پاکستان میں ترک ماڈل اسکول قائم کیے۔ فنی سیکڑ میں ترکی نے ٹیکنیکل تعلیم میں پاکستان میں کئی ادارے قائم کیے جن سے لاکھوں بچوں نے فنی تعلیم حاصل کی اسی طرح علاج کی سہولت دینے کی غرض سے مظفر گڑھ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے طیب ایردوان ہسپتال بنا کر مظفر گڑھ کی عوام کے دل جیت لیے۔ دوطرفہ ملکی معاملات میں جہاں ترک اور پاکستان کے ایک دوسرے کئی معاہدے کیے ان میں تجارت کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ جس سے دونوں ممالک نہ صرف تاجر بلکہ عوام کو بھی سمجھنے اور دیکھنے کا موقع ملا ۔الغرض میں نے کافی کوشش کی کہ میں دونوں ممالک کی دوستی اور محبت کے لیے بہت کچھ لکھ سکوں، میں اپنی اس ادنیٰ سی کوشش میں کتنا کامیاب رہا کتنا نہیں یہ تو آپکی رائے ہی بتا سکتی ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اگر مجھے دوبارہ موقع ملا تو میں اپنی اس کاوش کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کروں گا۔ آپ کا اور میرا ساتھ ایک سال تک جاری رہا اور آج مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں ترکی کی کسی گلی کے گھر کو چھوڑ کر آ رہا ہوں لیکن میری دعا ہے کہ ترکی اور پاکستان کی دوستی ہمیشہ برقرار قائم و دائم رہے دونوں ملکوں کی عوام ایک دوسرے محبت کرتی رہے اور ہر مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہیں ۔
ترک بہن بھایئوں کو ایک پاکستانی بھائی کا سلام
محمد ناصر اوپل


ٹیگز:

متعللقہ خبریں