ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 48

ترکی کا تاریخی پس منظر

143802
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 48

دنیا جانتی ہے کہ ترکی ایک جمہوری سیکولر آیئنی جمہوریت ہے جس کا موجودہ سیاسی نظام 1923 کو سلطنت عثمانیہ کے بعد مصطفی کمال اتاترک کے نظریہ کے مطابق ترتیب دیا گیا ترکی عالم اسلامی کابانی رکن اور1949 سے یورپی مجلس اور 1952سے شمالی اوقیانوسی معاہدے کے رکن کی حثییت سے بھی جانا جاتا ہے ترکی کی یورپ میں شمولیت کی کوششیں عرصہ درازسے جاری ہیں وہ اس لیے کہ یورپ اور ایشیا کے درمیان ترکی کا وجود ہے۔
ترکی کا سرکاری نام جمہوریہ ترکی ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما اناطولیہ اور جنوبی مشرقی یورپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے ترکی کی سرحدیں 18 ممالک سے جا ملتی ہیں شمال مغرب میں بلغاریہ ،مغرب میں یونان ،شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا ) مشرق میں آرمینیاء ،ایران ،اور آذربائیجان کا کچھ علاقہ جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں جدید ترکی کا موجودہ علاقہ دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں سے ہے جہاں مستقل طور پر انسانی تہذیب موجود ہے۔
چتال خیوک ،چایونو،نیوالی جوری،خاجی لر،گونگلی تپے اور مرسین کے علاقے انسانوں کے اولین رہائشی علاقے تھے ۔ترکی کی اناطولیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے یہاں پتھر کےزمانے سے انسان موجود ہیں بحیرہ اسود کے آس پاس اب سے دس ہزار سال پہلے آبادی کے آثار ملے ہیں ترکی کو تاریخی اعتبار سے یوں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
زمانہ قبل ازتاریخ 2500 قبل مسیح سے پہلے
کانسی کا دور 2500 قبل مسیح سے 700 قبل مسیح
لوہےکا دور 700قبل مسیح سے 330ء
رومن باز نظینی دور 330ء سے 1453
سلجوقی دور 1071ء سے 1300 ء
عثمانی دور 1299ء سے 1923ء
اور جمہوری دور 1923 ء سے تا حال، قبل از تاریخ کا زمانہ 2500 قبل مسیح سے پہلے ترکی میں قبل از تاریخ کے آثار ملتے ہیں اور بحیرہ اسود کی تہہ میں بھی انسانی آبادی کے آثار ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ علاقہ پانی سے باہر تھا ہوسکتا کہ کسی جغرافیائی تبدیلی کی وجہ سے بحیرہ اسود کی سطح بلند ہوئی اور یہ علاقہ زیر آب آگیا۔ انا طولیہ کا بڑاحصہ عراق کی قدیم اکدانی سلطنت کا حصہ رہا ہے تاریخی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ سلام کے طوفان کا زمانہ بھی یہی تھا خیال کیا جا تا ہے کہ طوفان کی وجہ سے بحیرہ اسود کی سطح بلند ہوگئی ہو اور یہ علاقہ زیر آب آگیا ہو۔


کانسی کا دور
کانسی کا دور 2500 قبل مسیح تا 700 قبل مسیح اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں آلات اور برتنوں کا بڑا حصہ کانسی سے بنایا جاتا تھا۔ 2500 قبل مسیح کے بعد حتیوں نے اناطولیہ میں قدم جمانے شروع کر دیئے تھے۔ دراصل یہ انڈویورپین نسل کے کسان تھے، جنہوں نے اناطولیہ میں قدم جمانے کے بعد شاندار سلطنت قائم کی، ان کے قوانین دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں زیادہ انسان دوست تھے ۔
حتیوں کا مذہب مشرکانہ تھا جس میں بہت سے خداؤں کی پوجا کرتے تھے اور بادشاہ کو پجاریوں کا سربراہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ حتی سلطنت 1400 قبل مسیح کے قریب اپنے عروج کو پہنچی ہر اُبھرتی چیز کو زوال کی طرح اسے بھی آہستہ آہستہ زوال آنا شروع ہوا اور اس کی جگہ بہت سی تہذیبوں نے لے لی۔ حتیوں کے ساتھہ ساتھ اناطولیہ کےکچھ حصے پر آسوری بھی قابض رہے ان کا اصل وطن دجلہ اور فرات کے درمیان ذرخیز وادی میزو پوٹا میا تھی اس عرصے میں ترکی کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوتی رہیں مغرب کی طرف یونانی اقوام کااثر رہا اور مشرقی جانب سے یہ عراق کی قدیم سلطنتوں کے اثر زیر رہا اسی دور میں مغربی ترکی میں آئیونیا تہذیب ،فرائی جیا تہذیب ،اور ٹرائے کی تہذیب بھی غالب رہی ۔
لوہےکا دور
لوہےکا دور 700 قبل مسیح سے 330ء تک کو کہا جاتا ہے لوہے کا دور کا آغاز حضرت سیدنا داؤد علیہ سلام سے ہوا قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالٰی نےان کے ہاتھوں لوہے کو نرم کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کو لوہے کی وسیع سلطنت ملی ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ سلام کے زمانے میں لوہے کے دیگر صنعتوں نے بھی بہت ترقی کی، ہواؤں کو مسخر کیا گیا ،سمندر کے خزانوں کو تلاش کیا گیا، عظیم الشان بڑی بڑی عمارتیں تیار کی گئیں۔ اس دور میں سائنسی کی ترقی کا اتنا عروج تھا کہ ملک یمن جسے ترقی والے ملک کی ملکہ بھی ان کے محل میں آ کر خود کو کسی دیہات کی ایک عام عورت محسوس کر نے لگی تھی پھر یہ ترقی رفتہ رفتہ اسرئیل سے نکل کر دیھر ممالک کی قوموں تک جا پہنچی ۔
مغربی ترکی لیڈیا کی سلطنت اور مشرقی ترکی ایران کی ہاخامنشی سلطنت کے زیر اثر آگیا تھا، 334 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کرلیا بد قسمتی سے اس کے جانشین اتنی بڑی سلطنت کو سنبھال نہ سکے اور یہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی پھر یہاں ایک طویل عرصے تک یونانیوں کی سیلوسی حکومت قائیم ہھو گئی جو کہ 63سال تک قایئم رہی درمیان میں کچھہ عرصہ آرمنییوں کی حکومت بھی قایئم رہی اس کے بعد رومیوں کو عروج ملا اور اس کے فاتحین نے پورا انا طولیہ فتح کر کے اسے روم کاحصہ بنا دیا ابتدا میں یہ ایک جمہوری حکومت کے طور پر قایئم ہھوئی لیکن بعد میں یہ بادشاہت میں تبدیل ہھوگئی پھر تو انھوں نے ترکی کے علاوہ موجودہ شام ،ارد ن ،فلسطین ،اور مصر پر قبضہ کر لیا اس دور میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی بعث ہھوئی آپ کےبعد آپ کے ماننے والوں کی بڑی تعداد نے ترکی کو اپنا مسکن بنا لیا اور ہیاں سے اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیاں تیز کر دیں۔

رومی دور 330ء تا 1453ء
300ء تک اس پورے علاقے میں عیسائی مذہب پھیل چکا تھا 330ء میں روم کے بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر کے اس سرکاری مزہب قرار دے دیا تھا یہ ہی وہ بادشاہ تھا جس نے موجودہ استنبول کے مقام پر عظیم شہر قسطنطنیہ بسانے کا حکم دیا جو اس کا دارالحکومت بنا اس سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا چہر تھا جس کانام بازنطین تھا
ساتویں صدی کے دوران مسلمانوں نے شام اور مشرقی ترکی کو فتح کرلیا جس کی وجہ سے رومی سلطنت صرف انا طولیہ کے مغربی علاقوں تک رہ گئی تھی 1037 میں اس علاقے میں طغرل بیگ نے سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھہ ڈالی مشرقی اور وسطی اناطولیہ پر سلجوقوں اور مغربی ترکی پر رومیوں کی حکومت رہی
18ویں صدی سے 13ویں صدی قبل مسیح میں ہیاں حطیوں نے پہلی بار بڑی حکو مت قائم کی ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں