ترکی اور تعلیم - 31

یورپین یوتھ کونسل کے نمائندئے ماریوس اولوزاس کے قیصری میں انٹر نیشنل یوتھ ایمپلائمنٹ سمپوزیم سے خطاب

79995
ترکی اور تعلیم - 31

جو لوگ آپ کے خواب کی قدر نہ کرتے ہوں ان سے دور رہنا چاہیے۔ چھوٹی سوچ کے مالک ہمیشہ ہی یہی کرتے ہیں جبکہ عظیم انسان آپ کے خوابوں کو عظیم تر بنانے کے لیے آپ کی مدد کرتے ہیں۔ "
ترکی اور تعلیم کے زیر عنوان ہمارا سلسلے وار پروگرام جاری ہے۔ آج ہم نے اپنے اس پروگرام کا آغا ز عظیم رائٹر مارک ٹوین کے ایک اقتباس سے کیا ہے ۔ انسانوں کو اپنے خواب اور خیالات کو حقیق کا روپ دینے کے لیے ان کی حمایت اور امداد کی جانی چاہیے۔
گزشتہ ہم نے یورپین یوتھ کونسل کے نمائندئے ماریوس اولوزاس کے قیصری میں انٹر نیشنل یوتھ ایمپلائمنٹ سمپوزیم میں خطاب کے ایک حصے کو آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں تعلیمی زندگی میں اپنے تجربات اور عام تعلیم سے کس طرح متعارف ہونے اور پھر اس میدان میں اپنے تجربات سے آگا ہ کیا تھا اور آج ہم ان کے خطاب کے دوسرے حصے کو آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
یوتھ کے بارے میں کام کرنے والی انجمنوں کے ساتھ امور کی انجام دہی کے دوران میں نے یورپین یوتھ فورم کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یورپین یوتھ فورم ایک یورپی اور ایک بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی ایک نہایت ہی اعلیٰ پائے کی ایک آرگنائزیشن ہے ۔ وہاں سے میں نے کیا کچھ سیکھا؟ مختلف انسانوں سے کام کرنے کے مختلف طریقہ کار موجود ہیں۔انسان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے بھی کئی ایک راستے موجود ہیں۔ سن 2002 سے یورپی یونین میں یوتھ کے مسائل حل کرنے کے نام سے ایک پروگرام پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور وہاں پر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ : "نوجوانوں کے لیے کیے جانے والے تمام فیصلوں پر نوجوان بحث و مباحثہ کرنے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے۔ " اس کا مطلب ہے نوجوانوں کو فیصلہ کرنے کے میکانزم میں شامل کیا جا رہا ہےیعنی دوسرے الفاظ میں ان کو اپنی آواز پہنچانے کا حق دیا جا رہا ہے۔"
یوتھ کو یا نوجوانوں کے لیے اہمیت کے حامل انفرادی مسائل بہت بڑے ہیں بلکہ یہ مسائل اتنے بڑے ہیں کہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہیں ۔ اس لیے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں مشترکہ طور پر کام کرنے اور کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
نتیجتاً میں یہ کہہ سکتا ہوں کے نوجوانوں پر الزام مت عائد کریں بلکہ ان پر اعتماد کریں کیونکہ ان پر اعتماد کرتے ہوئے ہی ان سے اعتماد اد افروز اقدامات کی توقع کرسکتے ہیں۔ ہمیں جس کی چیز کی ضرورت ہے وہ یہی ہے۔ آئندہ بیس سال کے دوران 40 فیصد کے قریب ایسے امور ہمارے سامنے آئیں گے جس کے بارے میں ہم ابھی جانتے بھی نہیں ہیں۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل کتنا روشن ہے۔ ہمیں مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کو کھلے ذہن کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے۔ ہمیں اپنی محدود تعلیم سے باہر نکل کر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ایک ہی وقت میں ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن نوجوان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی توانائیاں اس طرف صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان اداروں کی جانب رخ کرنا چاہیے جو نوجوان نسل کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف سیکٹروں کے ساتھ اہم آہنگی کے ساتھ اپنے امور کو سرانجام دینا چاہیے اور ایسا کرتے وقت ہمیں مختلف طریقہ کار استعمال کرنا چاہیے۔ ہم صرف اسی طریقے سے اپنے آپ کو پڑوان چڑھاسکتے ہیں
یورپین یوتھ کونسل کے نمائندے ماریوس اولوزاس کے اس اہم خطاب پر ہم ان کے مشکور ہیں اور اب ہم سالٹو یورپین میڈیٹرینین ریسورس سینٹر کے کوارڈی نیٹر اور فرانسیسی قومی ایجنسی کےڈپٹی چیرمین برنارڈ ابریگنانی کے خطاب کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہی:
" دنیا میں یوتھ ایمپلائمنٹ سے متعلق تمام مسائل موجود ہونے کے باوجود ہم پنے مستقبل سے خوش اور ان مسائل کو حل کرنے اور ان سے نبٹنے میں مصروف ہیں۔
نوجوان نسل کو جس چیز سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسکول کیوں قائم کیا گیا اور اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اسکول درا صل مستقبل کے باشندوں کو مستقبل کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ سب سے پہلا اسکول قدیم یونان میں تاریخ سے قبل قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ قرونِ وسطیٰ کے دور میں ہونے والی اس پیش رفت کے دوران طلبا ہر گھنٹے بعد مختلف امور پر لیکچر حاصل کیا کرتے تھے۔ وہ حساب پڑھنے کے بعد فلسفے اورمنطق کے درس حاصل کیا کرتے تھے۔ جس سے ان کو مختلف حالات میں مختلف طریقے سے مسئلوں کو حل کرنے کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی تھی۔ ان کو دماغ کے ایک حالات سے نکل کر دوسرے حالات میں ڈھلنے کا موقع مل رہا تھا اور اس طرح وہ اپنے آپ کو تمام طرح کے حالات کے لیے تیار کررہے تھے۔
بعد میں اس مقصد کو بالکل فراموش کردیا گیا۔ عمارتیں اور ادارے قائم کیے جانے لگے اور طلبا کو ہفتہ وار پروگرام سے آگاہ کیا جانے لگا۔ اس کے مطابق تعلیم کا سب سے اہم مقصد مختلف حالات میں اہم آہنگی پیدا کرنا اور اس سے طلبا کو آگاہ کرنا تھا۔ ورنہ تو زندگی غاروں میں بھی گزاری جاسکتی تھی۔
اگر اسلام اور تعلیم کے بارے میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے والی مثال پیش کرنا پڑے تو کہہ سکتے ہیں۔مذہب اسلام نے لوگوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے لیے کھیلوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی تھی اور ان کو نیزہ بازی، گھوڑ سواری اور تیراکی کرنے سے آگاہ کیا تھا۔ اگرآپ کے پاس ایک تیر اور کمان ہو لیکن اگرکمان کی تار ٹوٹی ہوئی ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی پرابلم موجود ہے۔اس لیے ان حالات میں ایک سے زائد کمان رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ یعنی مختلف حالات میں آپ کو اپنے اپ کو تیار رکھنا ہوگا۔
گھوڑ سواری کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں متحرک ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کو مختلف حالات میں مختلف ثقافتوں میں سمونے کے لیے اپنےآپ کو تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔ تیراکی کے معاملے میں اگر کچھ کہنا پڑے تو کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو فعال رکھنے کے لیے ہمیں ہر وقت چوکس و توانا رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ایسا ہم تیراکی کرتے ہوئے ہی کرسکتے ہیں۔
آخر میں میں نوجوانوں کو کہوں گا کہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے اور ان کو پڑو ان چڑھانے کے لیے ہر ممکنہ طریقہ کار استعمال کریں ۔ اپنے آپ کو ایک سے زائد حاالات کے مطابق ڈھَالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیشہ تیار اور چوکس رہیں اگر آپ تیار ہوں گے تو اس کے بعد اپنے مقاصد کو باآسانی حاصل کرلیں گے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں