ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر 27

معیشت کی بہتری کے لیے ترکی کے اقدامات

64592
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر 27

ترکی جس طرح غیر محسوس طریقے سے اپنی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہا ہےاس سے بیشتر یورپی ممالک نے ڈھکے چھپے الفاظ میں تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ پہلے ترک معیشت کا انحصار یورپی یونین پر تھا مگر نئی ترک قیادت نے ملکی معیشت کی بنیاد وسیع کرنے کا جو خواب دیکھا تھا اسے پورا کر دکھایا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ترک عوام کی اکثریت یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند ہے تاہم کئی یورپی ممالک کے امتیازی سلوک اور رویوں نے ترک قیادت کو ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک سے بھی تجارتی تعلقات قائم کر نے پر مجبور کر دیا۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ شاید ایک وجہ یہی ہےکہ ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کے پاکستان کے دورے ہمیشہ محبت اور دوستی کے فروغ کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ترک قیادت مسلم دنیا کی پہلی لیڈر شپ ہے جس نے اسرائیل کے لیے امریکہ کی بے جا حمایت پر سب سے پہلے احتجاج کیا وزیر اعظم طیب ایردوان بین الااقوامی کانفرسوں اور اجلاسوں میں بھی اسرائیلی جارحیتوں پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔
چین اور ترکی کے تعلقات میں بھی فروغ آنے کا واضح طور پر مشاہدہ ہورہا ہے۔ ترکی کا دورہ کرنے والے چینی وزیر اعظم سے مذاکرات میں ترکی۔ چین تجارتی تعلقات پر بات چیت سمیت اس کے پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمے کی خاطر منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے جن تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ان کے نتیجے میں کچھ ہی عرصے میں ترکی کی بیرونی تجارت کا حجم قابل ذکر حد تک بلند سطح تک پہنچ جائے گا۔ دوطرفہ تجارت میں امریکی ڈالر اور یورو کرنسی کی بجائے یہ دونوں ممالک آپس ترک لیرے اور چینی کرنسی یوآن میں تجارت کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ گے جس سے دنیا کے سامنے انہیں اپنی کرنسی کو مزید متعارف کروانے کا موقع میسر آئے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دنیا سے ڈالر کا رعب ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ چین اور ترکی باہمی تعلقات میں فروغ کے علاوہ حکمت عملی پر مبنی تعاون کے حوالے سے بھی تجارت کے لیے مقررہ ہدف تک رسائی کے لیے کافی پُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 17 عرب ڈالر کے جدید تجارتی حجم کو 2015 تک 50 ارب ڈالر اور 2020 تک 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیاہے، جو کہ ایک بڑی ڈیل تصور کی جا رہی ہے۔ ترکی نے چین کے تعاون سے بڑے مواصلاتی منصوبے بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ترکی کے اہم شہروں ایسکی شہر ،استنبول ،اور انقرہ ،کو ایک تیزرفتار ٹرین کے ذریعے ملانے کے بعد 5000 ہزار کلو میٹرطویل ریلوے لائن کا جال بچھانے کا کام بھی چین کے تعاون سے کیا جائیگا۔ جس سے ان دونوں ملکوں کے باہمی روابط کا اندازا ہوتا ہے۔ ترک۔ چین دوستی کا لفظ بہت عجیب سا لگتا ہے کیونکہ ہمارے بچپن سے ہی پاک ترک دوستی کے الفاظ کانوں میں گونجتے رہے،لیکن دوستی کسی ایک سے ہی نہیں ہر اس سے کی جاسکتی ہے جس سے ذہن دل ماحول اور حالات ملتے ہوں۔ ثقافت کے لین دین سے دو اقوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لایا جاسکتا ہے جس کے جتنے زیادہ دوست ہوں گے، مشکل گھڑی میں وہ ہی کام آئیں گے۔ خطے میں 3 ممالک کو دوست ممالک سمجھا جاتا ہے جن میں پاکستان ،چین اور ترکی شامل ہیں۔ یہ تینوں ممالک دہشت گردی کے خلاف محبت امن بھائی چارے اور دوستی کے فروغ اور ایک دوسرے کی باہمی امداد کے ذریعے ترقی کے راستے پر چلنے کے خواہاں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین اور ترکی کے درمیان دوستی و تعاون صرف ان شعبوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جوہری توانائی ، تھرمل اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشنز کی تنصیب سے لیکر سیاحت اور فضائی نقل و حمل تک کے وسیع شعبہ جات میں تعاون بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
تیزی سے ترقی کی منزل طے کرنے والی ان دونوں اقتصادی طاقتوں کے درمیان تعاون کے لیے حالیہ معاہدوں کا عالمی رائے عامہ بہ شمول یورپی یونین اور امریکہ بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ ترکی اور چین نے ایک لمبی ریلوے لائن جو کہ چین سے ترکی تک ہوگی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں یہ ریلوے لائن براستہ پاکستان کے راستے ایران سے ہوتی ہوئی ترکی تک جائے گی۔ جبکہ چین پہلے ہی پاکستان کے دل لاہور شہر میں ایک تیز رفتار میٹرو ٹرین چلانے کے لئے اپنی قابل عمل رپورٹ مکمل کر چکا ہے۔ ترک قیادت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نے کے لیئےجس قدر کوششیں کر رہی ہے اس کے موثر ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی ایک جانب تو یورپی یونین سے اپنے تعلقات میں کوئی کمی نہیں آنے دے رہا اور دوسری جانب وہ اسلامی دنیا سے اپنے تعلقات کو بھر پور طریقے آگے بڑھا رہا ہے۔ ترکی یہ جان چکا ہے کہ ترقی کیسے کی جاتی ہے اسی لیے وہ دنیا سے دوستی کرنے اور اسے نبھانے کے فن سےبھی واقف ہے۔ جب استنبول میں تنظیمِ اسلامی تعاون کی مستقل اقتصادی کمیٹی کے اعلی ماہرین کا اجلاس ہوا تو صدر عبداللہ گل نے مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا، انہوں کہا کہ دنیا کے ہر براعظم میں مسلم ممالک موجود ہیں ان میں کچھ ترقی یافتہ ہیں اور کچھ ترقی پزیر اور کچھ پسماندہ۔ عبداللہ گل کی تجویز یہ ہے کہ پسماندہ مسلم ممالک اقتصادی ترقی کے لیے فوری طور پر مل جل کر اقدامات کر یں اس مقصد کے لیے ترقی یافتہ ممالک اپنے پسماندہ برادر ممالک میں سرمایہ کاری کریں اور انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا ہو نے میں مدد کریں۔ جس نہ صرف اس ملک میں روز گار کے مواقع بڑھیں گے لکہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل رنگ سامنے آئے گا۔ اسلام کا قلعہ اور اسلامی ممالک مضبوط ہو ں گے، ایک اور قابل تعریف بات جس سے ترکی کی اسلا م اور اسلامی ممالک کے لیے محبت نظر آتی ہے وہ یہ کہ عبداللہ گل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پسماندہ ممالک کے لیے ایک اسلامی فنڈ قائم کر دیا جائے جس سے صرف پسماندہ اسلامی ممالک کی مدد کی جائے۔ جس دن ترکی میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا اسی دن ترک وزیر اعظم برلن مین جرمن چانسلر اینگیلا مرکل سے دو طرفہ اقتصادی تعلقات میں تیزی کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ترکی کے صدر اور وزیر اعظم کی سوچ ایک ہی ہے یعنی ترکی کی ترقی اور اسلا م کا بول بالا۔ توقع ہے کہ موجودہ لیڈر شپ کے تحت ترکی جلد ہی نہ صرف ایک مضبوط اقتصادی قوت بن جائے گا بلکہ اثرورسوخ کی حامل ایک فوجی قوت کا اعزاز بھی حاصل کر لے گا۔ ترکی کی ترقی کو دیکھ کر اکثر لوگ یہی کہتے ہیں "شاباش ترکی شاباس"
تحریر: محمد ناصر

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں