صحت و سیاحت 26

127078
صحت و سیاحت 26

: اس پروگرام میں ہم آج آپ کو مشرقی ترکی کے شہر آعری میں واقع گرم پانی کے چشموں کے بارے میں بتائیں گے۔
ضلع آعری اپنی تاریخی و ثقافتی لحاظ سے خوبصورت اور سر سبز پہاڑوں کے دامن میں واقع حسین شہر ہے ۔ اس شہر میں ترکی کا بلند ترین پہاڑ بھی واقع ہے جسے کوہِ آعری کہا جاتا ہے ۔ 5137 میٹر بلند یہ پہاڑ گرمی کے موسم میں بھی برف سے ڈھکا رہتاہے ۔ یہ پہاڑ اپنے دشوار گزار راستوں کی وجہ سے کوہ پیماوں کےلیے بھی خاصی توجہ کا مرکز بنتا ہے ۔ روییت ہے کہ حضرت نوح علیۃ السلام کی کشتی بھی اسی پہاڑ پر موجود تھی ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ کرہ ارض پر جب برائیوں کا غلبہ چھا گیا تو خدا نے بنی نوع انسان کو سبق سکھانے کےلیے حضرتِ نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا جس کی بلندی تیس آسمانوں ، طوالت تین سو عرشوں اور وسعت پچاس عرشوں پر محیط تھی ۔ اس دیو ہیکل کشتی میں حضرت نوح ،ان کی اہلیہ، بیٹے اور ان کی بیگمات کے علاوہ سات دیگر جاندار نر اور مادہ اور خوراک کا ذخیرہ رکھا گیا ۔ سات دن کے بعد چالیس دن اور راتیں جاری رہنے والے طوفان کے بعد اس کشتی پر سوار جانداروں کے سوا باقی تمام جاندار ہلاک ہو جاتے ہیں۔ طوفان تھم جانے کے بعد پانی اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے اور یہ کشتی آعری پہاڑ پر رک جاتی ہے جہاں پر کشتی میں سوار تمام جاندار کوژی کے مارے دنیا میں واپس لوٹ آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دینی اعتبار سے بھی اس پہاڑ کی اہمیت کافی ہے۔ اس کے علاوہ کوہ پیماوں کا بھی یہاں تانتا بندھا رہتا ہے جو کہ اس چوٹی کو سر کرتے ہوئے اپنے کارناموں میں اضافہ کرتے ہیں۔
آعری کی تحصیل دوعو بایزید میں اسحاق پاشا سرائے ہے جو کہ تحصیل سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں چٹانوں پر واقع ہے ۔ اس محل میں ایک سو سولہ کمرے ہیں کہ جنہیں اٹھارویں صدی میں دو ر عثمانیہ کے دوران تعمیر کروایا گیا تھا۔ درحقیقت یہ تحصیل اورارت،رومیوں ،بازنطینوں تک کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔
تقریباً ایک صدی میں تعمیر ہونے والا یہ محل استنبول کے توپ کاپی محل کے بعد دوسرا شاہی محل کا درجہ رکھتا تھا کہ جس میں مسجد ، باورچی خانے ، دیوان خاص و عام اور دیوانِ حرم موجود تھے ۔ اس محل میں سلچوکی ، عثمانی اور ایرانی فنِ تعمیر کے رنگ صاف نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس محل میں اٹھارویں صدی کے دوران سردیوں کے موسم میں گرمی پہنچانے کےلیے بھی خصوصی انتظام کیا گیا تھا جو کہ دنیا میں اپنی مثال آپ مانا جاتا ہے۔
ضلع آعری کی دیگر تحصیل دیادین اپنے گرم پانی کے چشموں کے حوالے سے بھی کافی معروف ہے جو کہ شہر سے سات کلومیٹر دور دریائے مراد کے کنارے آباد ہے ۔
دیا دین کے چشمے پرانے وقتوں سے زیر استعمال رہے ہیں کہ جن میں یلان لی، داود،کوپرو اور تونجا اوزدینلار قابلِ ذکر ہیں۔اس چشموں کے قریب شفا خانوں کو پندرہویں صدی میں اق قویون قوم نے تعمیر کروایا تھا۔ دیا دین کے پانی کا درجہ حرارت ساٹھ تا ستر ڈگری سینٹی گریڈ ہے کہ جس میں آئرن ، سلفر،سلفیٹ ،کیلشیئم اور بائی کاربونیٹ کی وافر مقدار موجود ہے ۔ ان چشموں کے پانی کو جلدی امراض، نظام ہضم اور گردوں کی خرابی سمیت نظام تنفس اور امراضِ نسواں کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
دیادین کے یہ چشمے مقامی مکینوں اور ہر موسم میں زیارت کےلیے مقبول ہیں کہ جہاں سخت سردی کے موسم میں یہاں کے گرم اور شفا بخش پانیوں سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں