عالمی ایجنڈا ۔80

125864
عالمی ایجنڈا ۔80


ترکی میں بارھویں صدر کے انتخاب کے لیے صدارتی مہم زور و شور سے جاری ہے ۔ برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کو صدارتی امیدوار جبکہ حزب اختلاف عوامی جمہوری پارٹی اور قومی تحریک پارٹی نے اکمل الدین احسان اولو کو مشترکہ امیدوار اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی نے صلاح الدین دیمر تاش کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔انتخابات کا پہلا راونڈ دس اگست کو اور دوسرا راونڈ 24 اگست کو ہو گا ۔
کافی عرصے سے امیدواروں کے ناموں کے بارے میں عوام میں بڑا تجسس پایا جاتا تھا کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور مخالف پارٹیاں کسے امیدوار کے طور پر دکھائے گی اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اپنا کوئی امیدوار نامزد کرئے گی یا نہیں ۔خاصکر حزب اختلاف پارٹیوں کے مشترکہ امیدوار اور وزیر اعظم ایردوان کے امیدوار کھڑا ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ باعث توجہ تھا۔آخر کار امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا اور اب ان امیدواروں کی پروپگنڈا مہم شروع ہو گئی ہے ۔وزیر اعظم ایردوان نے اپنی مہم کا آغاز 1919 میں شروع ہونے والی جنگ نجات کے مقام سامسن اور ارض روم سے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اکمل الدین احسان اولو نے اپنے جائے پیدائش شہر یوزگات اور دیمر تاش نے دیار بکر سے اپنی انتخابی مہمات کا آغاز کیا ۔وزیر اعظم ایردوان اور دیمرتاش نے بڑےبڑے جلسے کرتے ہوئے عوام سے خطاب کیا جبکہ اکمل الدین احسان اولو نے چھوٹے مقامات پر اور میڈیا کے توسط اپنے خیالات کو عوام تک پہنچایا ۔
سامعین مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الا قوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹررمضان گیوزین کا اس موضو ع پر جائزہ
ترکی میں صدارتی امیدواروں کی سرگرمیوں اور کارکردگیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی ایک دلچسپ انتخابی عمل میں داخل ہو گیا ہے ۔ترکی میں پارلیمانی نظام ہونے کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صدارتی سسٹم کیساتھ انتخابات ہورہے ہیں ۔ رائے دہندگان اپنی اور ملک کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کسی لیڈر کو منتخب کریں گے ۔ترکی میں پہلی بار صدر کو عوام کیطرف سے منتخب کیا جائے گا ۔ یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ رائے دہندگان کو صدارتی امیدواروں کے سیاسی کردار ،منصوبوں اور پالیسیوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ان کا ناگزیر جمہوری حق ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار انتخابی پروپگنڈے کے دوران عوام کو واضح شکل میں اپنے بارے میں معلومات فراہم کریں ۔اگر صورتحال کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایردوان، احسان اولو اور دیمر تاش کے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے ۔ امیدواروں کے سیاسی تشخص ،مقبولیت اور ماضی کی کارکردگیوں کیوجہ سے ان کے درمیان یہ فرق موجود ہے ۔
وزیر اعظم رجب طیب ایردوان ایک سیاستدان ہیں۔ وہ کئی برسوں سے عالمی سیاست میں اور 12 سال سے ترکی کی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔وہ عوام کی جانی پہچانی
ایک اصلاحات پسند شخصیت ہیں۔اکمل الدین مصر میں پیدا ہونے والے ترک شہری ہیں ۔ وہ فنون اور تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ا سلامی تعاون تنظیم میں سیکریٹری جنرل کے فرائض ادا کرنے والے عالمی سطح پر جانے پہچانےسیکولر اور جدید نظریات کے حامی بیوروکریٹ ہیں ۔ صلاح الدین دیمرتاش پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے شریک چیرمین، دہشت گرد تنظیم پی کے کے کے سرغنہ عبداللہ اوج الان سے گہرے روابط رکھنے والے ترکی کے کرد باشندوں کے ایک اہم لیڈر ہیں اور وہ ترکی کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی ایک ریڈیکل مخالف شخصیت ہیں ۔
دراصل ان لیڈروں کی شخصیت سے ایک اہم حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔وزیر اعظم رجب طیب ایردوان ترکی کی ایک سو سالہ اسلامی ،روایت پسند اور معاشرتی روایات جبکہ اکمل الدین احسان اولو ترکی کی ایک سو سالہ سیکولر اور جدت پسندروایات کی نمائیندگی کرتے ہیں۔صلاح الدین دیمر تاش ایک سو سالہ کردی تحریکوں کو شیخ سعید کے بعد مختلف شکل میں جاری رکھنے والے کردوں کے لیڈر ہیں ۔اگر اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات ترکی کی ایک سو سالہ سیاسی ،سماجی اور ثقافتی تاریخ کا نتیجہ ہونگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں جمہوری نظام کے بانی ،سیکولر اور جدید نظریات یا آئیڈیالوجی کا ایک سو سال سے اس آئیڈیالوجی کی مخالفت کرنے والے مذہبی اور نسلی نظریات سے مقابلہ ہو گا ۔
صدارتی انتخابات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ عوام ترکی کی ایک سو سالہ تاریخ کے بعد کس قسم کے مستقبل کو ترجیح دیتے ہیں ۔ترک رائے دہندگان نہ صرف صدر کا انتخاب کریں گے بلکہ وہ اس خواہش کا بھی اظہار کریں گے کہ وہ کس طرز کی حکومت چاہتے ہیں ۔اس سے پہلے صدر کا انتخاب قومی اسمبلی کی جانب سے کیا جاتا تھا مگر اب عوام صدر کو منتخب کریں گے ۔
دراصل ان صدارتی انتخابات سے ترکی کی انتظامی شکل کی تجدید کے معاملے میں نظریات سامنے آ جائیں گے ۔ انتخابات کے نتائج سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ عوام ایردوان کے خواہش کردہ صدارتی نظام ،جمہوری عوامی پارٹی اور قومی تحریک پارٹی کا دفاع کردہ کلاسیک پارلیمانی نظام یا پھر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کاخواہش کردہ فیڈرل نظام کے حق میں ہیں ۔اسطرح وہ ترکی کی منزل کا براہ راست تعین کریں گے ۔امیدواروں کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی بدولت ترکی کو نیا رخ دیا جائے گا یا پھرموجودہ نظام ہی برقرار رہے گا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں