نامور ترک شخصیات - 22

غازی مصطفےٰ کمال اتاترک

88371
نامور ترک شخصیات - 22

ہم اپنے اس پروگرام میں نامور ترک شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے سامعین بیسویں صدی کو تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بیسیویں صدی ہی میں لاکھوںافراد کی ہلاک کا باعث بننے والی جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم لڑی گئی تھیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ علم اور ٹیکنولوجی کے لحاظ سے بھی بڑی ترقی دیکھی گئی۔ سیاسی لحاظ سے بھی جدید نظاموں کو متعارف کروایا جانے لگا۔ اس عرصے کے دوران کئی ایک قد آور سیاسی شخصیات کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی ۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں پہلی جنگ عظیم کی وجہ سےدنیا غربت اور اقتصادی بحران کا شکار دکھائی دی۔ اسی دوران عوام کے اندر سے بھی ترقی اور روشن پسند تحریک کا بھی آغاز دیکھا گیا۔ مختلف خطوں میں خانہ جنگی بھی اپنےزوروں پر تھی اور مزاحمتی تحریکں بھی سر اٹھا رہی تھیں۔ اس دور میں استعماری قوتوں کے خلاف برسر پیکار شخصیت میں سے ایک شخصیت غازی مصطفیٰ کمال اتاترک بھی تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کو غیر ملکی دشمنوں سے پاک کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بڑے پیمانے پر کاروائی کاآغاز کررکھا تھا۔انہوں نے اس تحریک کو اناطولیہ تحریک کا نام دے رکھا تھا۔ یہ تحریک صرف مزاحمتی تحریک ہی نہ تھی بلکہ ترکی کے لیے جنگ نجات کی حیثیت رکھتی تھی۔اس جدو جہد میں ہزاروں کی تعداد میں ہیرو ابھر کر سامنے آئے تھے تاہم ان اہم شخصیات میں مصطفےٰ کمال اتاترک کو ان سب پر برتری حاصل تھی۔
جمہوریہ ترکی کے بانی، کامیاب کمانڈر انچیف اور عظیم شخصیت مصطفےٰ کمال اتاترک سن 1881 میں موجودہ دور میں یونان کی حدود میں شامل سیلانیک میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد علی رضا افندی طویل عرصے تک سرکاری ادارے میں فرائض ادا کرنے کے بعد تجارت امور میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے کچھ عرصے تج فوج میں بھی خدمات فراہم کیں۔ مصطفےٰ کمال کی والدہ زبیدہ خانم کا تعلق ایک صوفی خاندان سے تھا۔
چھوٹی ہی عمر میں اپنے والد ک کی شفقت سے محروم ہونے والے مصطفےٰ کمال نے اپنی ابتدائی تعلیم سیلانیک میں حاصل کی تھی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کے ہمراہ دیہات کا رخ اختیار کیا اور وہاں انہوں نے چھوٹی ہی عمر میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا تھا۔ ان کی والدہ ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کے حق میں تھیں انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنے بیٹے کو مسجد کے امام کے ہاں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔پھر ان کی والدہ نے انہیں دوبارہ سے سیلانیک اپنی پھوپھی کے ہاں بھیج دیا تاکہ وہاں وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔انہوں نے وہاں پر پہلے ملکیہ رشدیے میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردیا لیکن ایک واقعے کی وجہ سے ان کو اپنا یہ اسکول ترک کرنا پڑا اور سیلانیک عسکری رشدیے میں دیے جانے والے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس اسکول کا رخ اختیار کیا اور یہاں پر اپنی تعلیم جاری رکھی۔ وہاں پرمصطفےٰ نام کےحساب کے استاد موجود ہونے کی بنا پر ان کے استاد نے ان کے نام کے ساتھ پہچان کے طور پر کمال کا لاحقہ بھی لگادیا اور اس طرح مصطفےٰ کا نام مصطفےٰ کمال ہوگیا۔ سن 1896 -1899 کے درمیان انہوں نے مناستر کے فوجی اسکول میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے حارب فوجی اسکول میں داخلہ لے لیا ۔ یہاں پر انہوں نے سکینڈ لیفٹینٹ کے رتبہ حاصل کرتے ہوئے اپنی گریجویشن کیا اور حارب اکیڈمی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا انتخاب کرلیا گیا۔ گیارہ جنوری سن 1905 کو انہوں نے کیپٹم کا رتبی حاصل کرتے ہوئے اپنی فوجی ٹریننگ اور تعلیم مکمل کی۔ سن 1905 تا 1907 کے درمیان عرصے کے دوران انہوں نے شام پانچویں آرمی میں فرائض ادا کیے۔ سن 1907 میں سنئیر کیپٹن کا رتبہ حاصل کیا اور ان کی پوسٹنگ مناستر کردی گئی۔ انیس اپریل سن 1909 میں استنبول میں انہیں سٹاف آفیسرکے طور پر فرائض ادا کیے۔ سن 1910 کو انہیں فرانس بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے پیکارڈی آپریشن میں شرکت کی اور پھر سن 1911 میں استنبول میں مسلح افوج کے ہیڈ کوارٹر میں فرائض سرانجام دینا شروع کردیے۔
اس تاریخ کے بعد سے کئی ایک جنگوں میں شرکت کرنے والے مصطفےٰ کمال اتاترک نے پہلی جنگ عظیم کے دوران چناق قلعے کے محاذ پر انہوں نے بہادری کی داستانیں رقم کردیں اور کئی ایک جنگوں میں فتوحات حاصل کیں۔
سن 1918 میں انہوں نے استنبول واپس آتے ہوئے وزارتِ دفاع میں فرائض سرانجام دینا شروع کردیے۔ انہوں نے وطن کی سرزمین کو دشمن کے پنجے سے آزاد کروانے کے لیے انیس مئی سن 1919 کو فری بوٹ کے ذریعے سامسن کی راہ اختیار کی اور ترکی کی جنگ نجات کا آغاز کردیا۔ دنیا کی تاریخ میں آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگوں میں سے ایک مثال کی حیثیت رکھنے والی اس جنگ کے دوران ہی غازی مصطفےٰ کمال اتاترک نے سواس اور ارض روم میں کنونش منعقد کرتے ہوئے اپنی کاروائیوں کو مزید وسعت دے دی۔ 27 دسمبر سن 1919 کو انہوں نے انقرہ کا رخ اختیار کیا اور یہاں پر طویل قیام کے بعد انہوں نے 23 اپریل سن 1920 کو ترکی کی قومی اسمبلی کو قائم کرتے ہوئے اس کا جلاس طلب کرلیا ۔ ان کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں انہیں قومی اسمبلی ک کا صدر اور حکومت کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ ملک کے تمام علاقوں کو غیر ملکی دشمنوں کے پنجے سے آزاد کروانے کے لیے جنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ مصطفےٰ کمال کی قیادت میں ان کے ساتھیوں نے مسلسل فتوحات حاسل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا پانچ اگست 1921 میں قومی اسمبلی کے فیصلے کی رو سے مصطفے کمال اتاترک کو کمانڈر انچیف مقرر کردیا گیا۔ جنگ سکاریہ کے بعد انہیں غازی کا لقب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فیلڈ مارشل کا رتبہ بھی عطا کردیا گیا اور 20 اکتبور 1923 کو جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد انہیں ملک کا پہلا صدر منتخب کرلیا گیا۔
غازی مصطفےٰ کمال کو سن 1934 میں ترکی کی قومی اسمبلی کی جانب سے " اتاترک" کا خاندانی نام عطا کردیا گیا۔ اتاترک جنہیں عوام سے بے پناہ محبت ملی تھی نے عوام کے ساتھ مل کر ملک کی تقدیر بدلنے کا بیڑہ اٹھالیا تھا۔ انہوں نے ملک میں بڑے پیمانے اصلاحات کو متعارف کروایا اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک نئی مثال تشکیل دی۔
عظیم شخصیت اتاترک نے جنگ کے میدانوں میں اور سیاست کے میدان میں فتوحات حاصل کرنے کے بعد دس نومبر سن 1938 میں استنبول میں وفات پائی۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں