ترکی اور عالمی ایجنڈا

84112
 ترکی اور عالمی ایجنڈا

۔گزشتہ ہفتے ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے نتائج نے عالمی برادری کو ششدر کر کےرکھ دیا کیونکہ یہ نتائج یورپ کی انتہا پسند اور نسل پرست دائیں بازو کی پارٹیوں کی مقبولیت کے آئینہ دار تھے ۔خاصکر فرانس ، ڈنمارک ،برطانیہ ،جرمنی ، ہالینڈ، یونان اور بیلجیم میں نسل پرست پارٹیوں کے ووٹوں کی تعداد کافی زیادہ رہی ہے ۔فرانس کے قومی اتحاد برطانیہ کی یو کے آئی پی ،ڈنمارک کی عوامی پارٹی اور یونان کی سیریزا پارٹیوں نے اپنے ووٹوں کی تعداد کو ایک چوتھائی حد تک بڑھا لیا ہے ۔751 رکنی یورپی پارلیمنٹ کی 212 نشستیں یورپی عوامی پارٹی گروپ نے 186 سوشلسٹوں نے ،70 لیبرلز نے،55 گرین پیس پارٹی نے اور دیگر غیر جانبدار انتہاپسند اور نسل پرست پارٹیوں نے حاصل کی ہیں ۔انتہا پسند پارٹیوں کی غیر متوقع کامیابی یورپی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے مستقبل کے لحاظ سے انتہائی تشویشناک ہے ۔یورپی یونین کے مخالفین موجود تھے لیکن ان کی تعداد کے اسقدر زیادہ ہونے کا توقع نہیں کی جاتی تھی ۔فرانس کے وزیر اعظم مینوئیل والز نے نتائج کے اعلان کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان نتائج نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ہر شخص حیرت زدہ ہے اور ان نتائج کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اب انتہا ئی دائیں بازو کی مقبولیت کی وجوہات اور حل کے معاملے پر غورو خوض شروع ہو گیا ہے ۔
یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔
۔۔۔سامعین حالیہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کے مقاصد اور اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات پہلی بار 1979 میں اور آخری بار گزشتہ ہفتے ہوئے ہیں ۔یہ انتخابات یورپی یونین کی یکجہتی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔یورپی یونین کی مقننہ شاخ کی نمائندگی کرنے والی یورپی پارلیمنٹ ،یورپی کونسل اور یورپی کمیشن پر اثرورسوخ کو بڑھانے والی ایک طاقت کی حیثیت حاصل کر چکی ہے ۔یورپی یونین کی وسعت اور یکجہتی سے متعلقہ فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے یورپی پارلیمنٹ کی توثیق لازمی ہے ۔اگر صورتحال کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یورپی پارلیمنٹ کے دو اہم مقاصد سامنے آتے ہیں ۔پہلا یہ کہ یورپی پارلیمنٹ یورپی عوام کی مقننہ قوت کی نمائندگی کرتے ہوئے پورے یورپ کے نام پر آئینی امور کو سر انجام دیتی ہے اور یورپ کا سیاسی نقشہ سامنے لاتی ہے ۔اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ قومی پارلیمنٹوں پر اس کا اثرورسوخ کافی حد تک موجود ہے اور یہ صورتحال یورپ کی سیاسی یکجہتی کے لحاظ سے انتہائی حساس عنصر ہے ۔
علاوہ ازیں ءیورپی پارلیمنٹ یورپی یونین کی سیاست اور یورپی یونین کے دیگر ممالک کیساتھ تعلقات کو رخ دینے میں بھی اہم کردارادا کرتی ہے ۔مثلاً ترکی جیسے مستقل رکنیت کے امیدوار ممالک کو رکنیت دینے کا انحصار یورپی پارلیمنٹ کے فیصلوں پر ہے ۔یورپی پارلیمنٹ کے فیصلے اور تیار کردہ رپورٹیں ترکی کی رکنیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور وقت آنے پر ان رپورٹوں کی روشنی میں ہی ترکی کو رکنیت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
مختصراً یہ کہ یورپی یونین کی پوزیشن، پارٹی گروپوں کی قوت ،جھکاو ،موقف اور فیصلے یورپی یونین کے مستقبل کے تعین کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں ۔یورپی پارلیمنٹ کا ہدف یورپی یونین کی یکجہتی ،وسعت اور فروغ ہے لیکن حالیہ انتخابات کے نتائج سے یورپی پارلیمنٹ کی اس خصوصیت کو سخت دھچکا لگا ہے ۔نو منتخب انتہا پسند اور نسل پرست پارلیمانی نمائندے یورپی یونین ، یورپی یونین کی وسعت اور ترکی کی رکنیت کے سخت خلاف ہیں۔ انتہا پسند پارٹیوں کی کامیابی سے ترکی کی رکنیت خطرے میں پڑ گئی ہےیعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کی طاقت مزید بڑھ گئی تو پھرنئے ممالک کی رکنیت کے عمل پر کاری ضرب لگے گی ۔ انتہا پسند پارٹیوں کی مقبولیت کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔اہم ترین وجوہات کا تعلق اقتصادی بحران،غیر یورپی ممالک سے آنے والی مہاجرین ،بے روزگاری ،اسلام فوبیا ،اینٹی سیمٹزم اور یورپی ممالک کے لیڈروں کے موقف سے ہے ۔2006 کے بعد ان مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا جسکی وجہ سے یورپی یونین اور اس کے اداروں کے بارے میں نظریات منفی شکل اختیار کرتے گئے ۔ترکی کی رکنیت کا عمل اس کی ٹھوس مثال ہے ۔یورپی یونین کے سربراہان اور عوام 2004 سے لیکر 2006 تک ترکی کی مستقل رکنیت کے حامی تھے لیکن 2007 کے بعد صورتحال نے ایک دم پلٹا کھایا اور وہ ترکی کے خلاف ہو گئے ۔اس ریڈیکل تبدیلی میں جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل اور فرانس کے صدر سرکوزی کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان دونوں لیڈران کے ترکی کے خلاف بیانات سے انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں اور نسل پرستوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔ اگرچہ یہ دونوں لیڈر یورپ کے اقتصادی بحران کو ختم کرنے میں ناکام رہے مگر انھوں نے اپنے بیانات اور پالیسیوں سے انتہا پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اسوقت یورپی برادری اور یورپی یونین سخت امتحان سے گزر رہی ہے وہ یا تو نسل پرستی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیوں کو جاری رکھے گی یا پھر ان کی مقبولیت کو ختم کرنے کرنے کے لیے موثر تدابیراختیارکرئے گی ۔اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تواس سے یورپی یونین کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا اور اسکا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ اس کا مطلب یورپ کا دو عالمی جنگوں کے دور تک واپسی ہو گا ۔لیکن اگر یورپی یونین جدید نظریات کی حامی ہے تو وہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کرئے گی ۔دوراندیش یورپی سول سوسائٹیز اور ارباب سیاست نئی حکمت عملی اپناتے ہوئے نسل پرستی کو روکیں گے اور یورپی یونین کی تجدید کے لیے تدابیر اختیار کریں گے ۔فی الحال ان ایکٹرز کی قوت اور عزم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن وقت آنے پر حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی ۔ دوسری طرف ترکی کو یورپ کی صورتحال کا جائزہ لینے اور حالات کے مطابق اپنی پالسیوں کو وضح کر نے کی ضرورت ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں