عالمی ایجنڈا

67509
عالمی ایجنڈا

مصر میں فوجی انقلاب کے بعد عوام کیطرف سے منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کردیا گیا ۔ان کی معزولی کے بعد ملک میں ہنگاموں اور فوج کے خلاف احتجاج کاجو سلسلہ شروع ہوا تو تھا وہ ابھی تک جاری ہے ۔قاہرہ کا ادوئیے سکوئر مظاہروں کا مرکز تھا ۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں بے شمار افراد ہلاک ہو گئے جن میں اخوان المسلمین کے سربراہ کی بیٹی اسما بھی شامل تھی ۔گولیاں اس کے سینے اور پیٹھ پر لگی تھیں ۔اس کے والد نے اسے الوداع کرتے وقت اس کو لکھا ہو ا ایک خط پڑھا ۔اس خط میں لکھا تھا کہ" ابھی تمھاری باتوں سے میرا دل نہیں بھرا ہے ۔میں نے خواب میں تمھیں شادی کا جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ہے اور تمھاری شادی ہو رہی ہے ۔اس دوران تمھاری شہادت کی خبر موصول ہوئی۔میں تمھیں الوداع نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہم دوبارہ ملیں گے "۔ یہ خط ایک والد کیطرف سے اپنی بیٹی کو لکھا گیا رنج و الم کی عکاسی کرنے والا خط تھا ۔ انقلاب کے بعد مصر میں مصائب اور مظالم کا دور شروع ہو گیا تھا ۔بہار عرب نے مصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ حسنی مبارک کے 30 سال اقتدارکو پر امن مظاہروں کے نتیجے میں فروری 2011 میں ختم کر دیا گیا تھا ۔
۔۔
جون 2012 میں پہلی بار جمہوری انتخابات ہوئے اور عوام نے محمد مرسی کو صدر منتخب کر لیا ۔حکومت نے نئے آیئن کی تیاری کا کام شروع کر دیا ۔انتظامیہ کا مقصد ملک کو صحیح معنوں میں ایک جمہوری مملکت بنانا اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا ۔ لیکن ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اپریل 2013میں انھیں اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں ۔ان پر مطلق العنانیت کا الزام لگایا جا رہا تھا ۔دراصل مغربی ممالک کو یہ شک تھا کہ مرسی انتظامیہ سابق صدر انور سادات اوراسرائیل کے سابق وزیر اعظم بیگن کے طرف سے 1978 میں تعلقات کو معمول پر لانے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی پابند نہیں رہے گی کیونکہ مرسی کی حکومت حماس کی حامی تھی ۔اس صورتحال کی وجہ سے عالم مغرب کو مصر کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی ہونے پر تشویش لاحق تھی ۔انقلابی حکومت کیخلاف قاہرہ میں شروع ہونے والے پر امن مظاہروں نے اخوان المسلمین کے دفتر پر دھاوا بولنے کےپورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مظاہروں نے خونی واقعات کی شکل اختیار کر لی ۔جس کے بعد فوج نے 3 جولائی 2013 کو صدر مرسی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ان کی معزولی کی مخالفت کرنے والوں کو اسلحے اور گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں خاموش کرنےکی کوشش کی گئی ۔ اخوان المسلمین کی انجمن کو بند کر تے ہوئے ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی اور انجمن کے تمام اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا ۔
14 اگست کے واقعات کے دوران تشدد کی کاروائیوں اور حملوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے دعوے کیساتھ1228 افراد پر مقدمہ چلایا گیا ۔ عدالت نے 24 مارچ کو ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 528 افراد کو پھانسی کی سزا دی اور 17 کو بری کر دیا گیا ۔ماہ اپریل میں مقدمے کی دوسری پیشی صرف نو منٹ تک جاری رہی اور تمام ملزمین کو پھانسی کی سزا دیتے ہوئے اس سے قبل پھانسی کی سزا دئیے جانے والوں میں سے 491 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔سزا کی فائلیں اسوقت مصر کے مفتی کے پاس ہیں اگر انھوں کے توثیق کر دی تو ان افراد کو پھانسی دی جائے گی اور مصر میں دوبارہ خون کی ندیاں بہنے لگیں گی ۔
۔۔
سامعین انقلابی حکومت نے مرسی کے لیے جو کنواں کھودا تھا خود ہی اس میں گر گئی ۔مرسی حکومت پر اقتصادیات کو تباہ کرنے کا الزام لگانے والی انقلابی حکومت خلیجی ممالک کی مالی امداد کے باوجوداقتصادیات کو سدھار نے میں ناکام رہی ۔اس نے تمام سرکاری دفاتر کو مبارک کے حامیوں سےبھر دیا۔اب مصر میں دوبارہ انتخابی عمل شروع ہو گیا ہے ۔مصر کی سیاست میں فوج نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی ملک میں فعال سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔اگرچہ وہ مبارک کو اقتدار سے ہٹانے کی حامی تھی مگر اس نے بیوروکریسی میں بالکل مداخلت نہیں کی ہے ۔مرسی کے ایک سالہ دور اقتدار میں بھی صدارتی اختیارات کو اعلی فوجی کونسل کے حکمناموں سے محدود کیا گیا تھا ۔فوجی انقلاب سے یہ حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔
اسماء کیطرح مصر میں 1966 میں انقلاب کی مخالفت کیوجہ سے شہید کیے جانے والے اخوان المسلمین کے فکری رہبر قطب نے تم آزاد ہو نامی اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ "میرے بھایئوں آپ جیل کی سلاخوں کےپیچھے بھی ہوں آپ کو زنجیروں سے بھی جھگڑا جائے تو بھی آپ آزاد ہیں 'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ شعر اس وقت جیل میں بند انقلابی حکومت کے مخالف ہزاروں ا فراد کے لیے تحریر کیا ہو ۔سامعین مغربی ممالک نے مصر میں انقلاب کے وقت جس طرح خاموشی اختیار کیے رکھی تھی اس وقت بھی مصری عدالت کے سینکڑوں مخالفین کو پھانسی کی سزا کے فیصلے کے بارے میں بھی اختیار کر رکھی ہے ۔ترکی واحد ملک ہے جس نے فوجی انقلاب کیطرح پھانسی کی سزاوں کے فیصلے کی بھی بھر پور طریقے سے مخالفت کی ہے ۔مصر کیساتھ گہرے تاریخی اور ثقافتی روابط رکھنے والا ملک ترکی ماضی کیطرح مستقبل میں بھی اپنے مصری بھائیوں کا ساتھ دیتا رہے گا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں