قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل 2014ء اتفاق رائے سے منظور

پاکستان کی قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے نئے قانون ’پروٹیکشن آف پاکستان بل 2014 ‘ کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بل دو سال کے لیے نافذ العمل ہو گا

115620
قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل 2014ء اتفاق رائے سے منظور

پاکستان کی قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے نئے قانون ’پروٹیکشن آف پاکستان بل 2014 ‘ کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بل دو سال کے لیے نافذ العمل ہو گا۔
سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی تحفظ پاکستان بل 2014ء کی منظوری دے دی جس کے بعد بل قانونی شکل اختیار کرتے ہوئے آئندہ 2 سال کے لئے نافذ العمل ہوگا۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی ایوان میں موجود رہے۔ اجلاس شروع ہوا تو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالونی زاہد حامد نے تحفظ پاکستان بل 2014ء منظوری کے لئے پیش کیا ۔
اس بل پر بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے تاہم انھوں نے سکیورٹی اداروں کے اختیارات میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ تحریک انصاف پی پی او پر حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آخرکار حکومت کو ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے ایسے قوانین لانے کی ضرورت پڑ ہی گئی تاکہ ان قوتوں کے خلاف سخت اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے جنہوں نے پاکستان اور عوام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کی جانب سے بل کی بھرپور مخالفت کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ تحفظ پاکستان بل آئین کے آرٹیکل 8 اور 10 سے متصادم ہے جبکہ ملزم کو گولی مارنے کا اختیار گریڈ 15 کے بجائے گریڈ 17 کے مجاز افسر یا مجسٹریٹ کو دیا جانا چاہیئے تھا۔ قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اسے قانونی شکل دیتے ہوئے آئندہ 2 سال کے لئے نافذ کیا جائے گا جبکہ اس قانون کے تحت سیکیورٹی فورسز پر کسی شخص کو حراست میں لینے کے لئے وارنٹ کی پابندی نہیں ہوگی اور گرفتار شخص کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے ریمانڈ لیا جائے گا جبکہ خصوصی عدالت کا جج ملزم کو 60 روز تک جوڈیشل ریمانڈ دے سکے گا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں کو کسی مشتبہ شخص پر گولی چلانے کے لئے گریڈ 15 یا مساوی مجاز افسر کی اجازت لینا ہوگی جبکہ ملزم کے خلاف موبائل فون کا ریکارڈ قابل قبول شہادت ہوگا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں